احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
۔ مرزاقادیانی کے پاس صرف قلیل جائیداد تھی اور مریدوں کے طفیل سے قورمہ پلاؤ کھانے کو عنبر ومشک وزعفران استعمال کومل جاتا تھا۔ پھر اس میں اور بادشاہت میں بڑا فرق ہے۔ اسی طرح مرزاقادیانی کے ماننے والوں نے تو مرزا کو امام اور نبی ہی مانا۔ فرعون کے ماننے والوں نے اسے خدا مان لیا۔ پھر خدائی اور نبوت میں تو بہت ہی عظیم الشان فرق ہے۔ اس لئے فرعون کو مرزاقادیانی پر بہت زیادہ فضیلت ہوئی۔ البتہ مرزاقادیانی نے اپنے کو خدا منوانے کی تمہید شروع کردی تھی۔ چنانچہ (کتاب البریہ ص۸۵ خزائن ج۱۳ ص۱۰۳) میں لکھتے ہیں کہ: ’’میں نے اپنے کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں اور یقین کیا کہ وہی ہوں اور (الحکم مورخہ ۲۴؍فروری ۱۹۰۵ئ) میں ان کا الہام ہے۔ ’’انما امرک اذا اردت شیئاً ان تقول لہ کن فیکون‘‘ یہ صفت خاص خدائے تعالیٰ کی ہے کہ جس چیز کا ارادہ کرے۔ اس کا وجود فقط اس کے حکم سے ہو جائے۔ اس الہام سے معلوم ہوا کہ یہ صفت مرزاقادیانی میں ہے یا اﷲتعالیٰ نے انہیں یہ عنایت کر دی ہو۔ غرضیکہ خدائی کشف بھی انہیں ہوچکا اور الہام بھی ہوا اور پہلے سے کہہ دیا گیا ہے کہ قرآن وحدیث کے معنی اور صحت کا مدار میرے کشف والہام پر ہے۔ پھر خدائی کا ثبوت کیا دشوار ہے۔ مگر دیر آید درست آید کا مضمون پیش نظر رہا اور مریدین کے استقامت کا امتحان بھی درپیش ہوگا۔ اس لئے خدائی کا صریح دعویٰ ملتوی رہا۔ اگر کچھ دنوں عمر اور وفاکرتی تو یہ مرحلہ بھی طے ہوجاتا۔ اس میں شبہ نہیں کہ مرزاقادیانی نے بتدریج اپنے مراتب کو منایا۔ صرف ایک درجہ خدائی کا رہ گیا تھا کہ خود ہی خاک میں مل گئے۔ مریدوں کی حالت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسے بھی قبول کر لیتے اور قرآن مجید وحدیث شریف سے اسے ثابت کرنے کو موجود ہوجاتے۔ خیر یہ تو ہوگیا۔ اب اور سنئے۔ مرزاقادیانی اپنے عیش وعشرت اور امن وعافیت سے رہنے کو خدا کی تائید اور مدد بتاکر حضرت امام حسینؓ کی مصیبت کو دکھا کر فخر کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا جواب میںکیا دوں واقف کار انبیاء اور اولیاء کی مصیبتوں اور ان کے دشمنوں کی کامرانیوں سے واقف ہیں اور اب بھی منکرین اور مسلمین کی حالت معائنہ کر رہے ہیں۔ غضب ہے کہ ان امور سے چشم پوشی کر کے قرۃ العینین رسول الثقلین کی مذمت ہورہی ہے اوراسلام کا دعویٰ ہے اور ان کے ماننے والے آنکھ بند کر کے انہیں فنافی الرسول اور رسول مان رہے ہیں۔ (استغفراﷲ ونعوذ باﷲ) حضرات! اگر محبت اہل بیت نہیں ہے تو ایمان ندارد، امت محمدیہ یقین کر لیں کہ معرکہ دشت کربلا عشق ومحبت کا ایک تماشا تھا اور حضرت قرۃ العینین رسول الثقلین کو سید الشہداء کا مرتبہ دینا تھا۔ ایسے موقع پر عشاق کے زبان حال پر یہ شعر جاری ہوتا ہے ؎ نشود نصیب دشمن کہ شود ہلاک یتفت سردوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی