احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
قتیل الحب یہی حضرات ہیں جن کی محبت کا امتحان عالم کے روبرو ہوگیا اور سارے زمین وآسمان نے اس کی شہادت دے دی اور قورمہ پلاؤ کھا کر اور مشک وزعفران کا استعمال کرتے ہوئے اپنے کو قتیل الحب کہنا محض جھوٹا دعویٰ کرنا اور نادانوں کو دھوکا دینا ہے۔ مسلمانو! حضرت امام ممدوحؓ کی نسبت جو گستاخی اور تحقیر کی گئی اس کا بہت بڑا اثر حضرت رسول کریمﷺ اور مذہب مقدس اسلام پر پڑتا ہے۔ اس لئے کہ مخالفین اسلام جب مرزاقادیانی کے ان اقوال کو دیکھتے ہوں گے تو ضرور کہتے ہوںگے کہ تمام دنیا کے مسلمان جنہیں دینی امام بڑے زوروشور سے مان رہے ہیں۔ ان سے افضل اور بہتر مرزاغلام احمد ہیں۔ لاکھوں مسلمان اسے مان چکے ہیں اور مرزاقادیانی کیسے ہیں اور ان کی کیا حالت ہے۔ اس کا پتہ ان کے خاص مرید ڈاکٹر عبدالحکیم خان اسسٹنٹ سرجن اور ان کے مخصوص رفیق ممدوح منشی الٰہی بخش صاحب کی تصانیف سے معلوم ہوتا ہے۔ جسے خواص وعوام دیکھ ہے ہیں اور ہر طرف سے مرزاقادیانی پر نہایت نفرت سے نظر پڑ رہی ہے۔ اسی پر امام صاحب کے حال کو قیاس کرنا چاہئے۔ یہ خیال کر کے مخالفین کو اس کہنے کا موقع ضرور ہے کہ جب مسلمانوں نے ایسی ناپاک حالت والے شخص کو نبی مان لیا اور حسینؓ کو دینی امام مان لیا جو مرزاقادیانی سے بھی کم مرتبہ ہیں تو ان کے مذہب کی حالت معلوم ہوئی۔ اس وقت میں اسی مختصر تقریر پر اکتفا کرتا ہوں اور حق کے طالبوں سے بہ منت کہتا ہوں کہ غور سے ملاحظہ کریں اور کتابوں میں مرزاقادیانی کے عقائد تفصیل سے لکھے گئے ہیں۔ انہیں ضرور ملاحظہ کیجئے۔ آخر میں مجھے اس کی اطلاع دینی بھی ضرور ہے کہ مرزاقادیانی کے اقوال میں بہت اختلاف ہے۔ مثلاً کہیں نبوت کا دعویٰ سے انکار اور کسی مقام پر بڑے زور وشور سے دعویٰ ہورہا ہے۔ یہ بھی سنا گیا ہے کہ حضرات امامین کی تعریف میں کوئی اشتہار چھپوا رکھا ہے۔ جہاں اس کی ضرورت دیکھتے ہیں۔ اسے پیش کردیتے ہیں۔ یا چونکہ یہ زمانہ پولیٹکل چالوں کا ہے۔ اس کا برتاؤ مرزاقادیانی اور ان کے پیرو جلب منفعت کے لئے کرتے ہیں۔ تاکہ سادہ لوحوں کو ہر پہلو سے گمراہ کر سکیں۔ واﷲ اعلم! اس وقت مسلمانوں کو عموماً اور اہل علم کو خصوصاً نہایت ضرور ہے کہ جن کتابوں کا حوالہ اس تحریر میں دیاگیا اور جن کے نام رسالہ اظہار حق کے آخر میں لکھے گئے ہیں۔ انہیں ضرور دیکھیں اور جب کسی بات میں شک ہو تو کسی ایسے ذی علم سے دریافت کریں جو مرزاقادیانی اور ان کی تصانیف سے واقف جیسے مولانا سید مرتضیٰ حسن صاحب چاند پوری اور مونگیر میں ناظم دار الاشاعت رحمانی سے دریافت کریں اور کسی مرزائی کے بہکانے میں نہ آئیں۔ واﷲ الموفق والمعین!