احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
نیز اسی کتا ب میں ہے: ’’پھر جب کہ خدا نے اور اس کے رسول نے اور تمام نبیوں نے آخری زمانہ کے مسیح کو اس کے کارناموں کی وجہ سے افضل قرار دیا ہے تو پھر یہ شیطانی وسوسہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ کیوں تم مسیح ابن مریم سے اپنے تئیں افضل قرار دیتے ہو۔‘‘ (حقیقت الوحی ص، خزائن ج۲۲ ص۱۵۹) دوسری کتابوں میں مرزاقادیانی نے اس سے بھی بہت زیادہ لکھا ہے۔ مگر چونکہ آپ نے ضمیمہ حقیقت الوحی کا حوالہ دیا ہے۔ لہٰذا ہم نے بھی اسی پر قناعت کی۔ نیز تتمہ حقیقت الوحی میں ہے کہ: ’’خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ان الہامات پر اسی طرح ایمان لاتا ہوں۔ جیسا کہ قرآن شریف اور خدا کی دوسری کتابوں پر اور جس طرح میں قرآن شریف کو یقینی اور قطعی طور پر خدا کا کلام جانتا ہوں۔ اسی طرح اس کلام کو بھی جو میرے پر نازل ہوتا ہے۔ خدا کا کلام یقین کرتا ہوں۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۲۲۹، خزائن ج۲۲ ص۲۴۰) پس اب سوال یہ ہے کہ کیا مجازی نبی حقیقی نبی سے افضل ہوسکتا ہے؟ یا اس کا الہام حقیقی نبی کے الہام کے برابر قطعی اور یقینی ہوسکتا ہے؟ یہ دعویٰ افضلیت ومساوات کا روشن دلیل اس بات کی ہے کہ مرزاقادیانی نے مجازی نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔ بلکہ حقیقی نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ دوم یہ کہ: (استفتاء ص۲۳) میں جس کی عبارت کا حوالہ آپ نے دیا ہے۔ مرزاقادیانی ختم نبوت کے ساتھ ایک استثناء لگا چکے ہیں۔ (لہٰذا) آپ کے تاویل کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ ص۲۲ کی عبارت ملاحظہ ہو: ’’وان نبیا خاتم الانبیاء لا نبی بعدہ الا الذی ینور بنورہ ویکون ظہورہ ظل ظہورہ فالوحی لنا حق وملک بعد الاتباع‘‘ (الاستفتاء ص۲۲، خزائن ج۲۲ ص۶۴۳) (ترجمہ) بے شک ہمارے نبی خاتم الانبیاء ہیں جن کے بعد کوئی نبی نہیں۔ مگر وہ شخص نبی ہوسکتا ہے جو حضورﷺ کے نور سے منور ہو اور اس کا ظہور حضور کے ظل کا ظہور ہو۔ لہٰذا حضور کی اتباع کے بعد وحی کے ہم حق دار اور مالک ہیں۔ پس جب مرزاقادیانی خود فرماتے ہیں کہ ختم نبوت آنحضرتﷺ کی اتباع کا دعویٰ کرنیوالے کے لئے نہیں ہوا تو آپ کا یہ کہنا کہ مرزاقادیانی ختم نبوت کے قائل ہیں۔ کس طرح قابل تسلیم ہوسکتا ہے۔ ۲… معراج شریف پر ایمان رکھنے والے کو آپ مسلمان ہونے کے لئے