احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
مولانا ممدوح آپ کی اجازت کے محتاج تھے۔ علاوہ ازیں جھوٹ بھی ہے۔ لکھنؤ کی تقریر کا اشتہار اسی دن چھپ گیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے خود ہی معافی مانگی تھی۔ اور مثلاً باگلے صاحب کو آمادہ کر کے ایک مضمون شائع کرادیا تاکہ ان کا پیچھا چھوٹ جائے۔ مگر خدا نے اس کو انہیں پر الٹ دیا۔ بسم اﷲ الرحمن الرحیم!حامداً ومصلیاً جناب من: کمال الدین صاحب! بعد ماہوالمسنون واضح ہو۔ کل بعد مغرب آپ کا عنایت نامہ کئی روز کے انتظار شدید اور وعدہ امروز وفردا کے بعد ملا۔ جس کا شکریہ قبول فرمائیے۔ اگرچہ بعض کلمات آپ کے قلم سے ہمارے علمائے دین کی شان میں خلاف ادب نکل گئے ہیں۔ لیکن ہم اس سے درگزر کر کے آپ کی باتوں کو تسلیم کرنے کے لئے آمادہ ہیں۔ صرف دو تین باتوں کے متعلق اپنی تشفی چاہتے ہیں۔ افسوس ہے کہ آپ نے بالمشافہ ہمارے علمائے کرام کے سامنے گفتگو کرنے سے صاف انکار کردیا ورنہ معاملہ بہت جلد صاف ہوجاتا اور یہ نزاع فرقی جس سے آپ اپنا تنفر ظاہر کرتے ہیں اور اس کو باعث تنزل اہل اسلام بیان کرتے ہیں، یقینا مٹ جاتا۔ خیر اب امور ذیل کا تشفی بخش جواب دیجئے۔ لیکن براہ کرم مثل سابق وعدۂ امروز وفردا میں وقت گزاری نہ فرمائیے۔ ۱… اپنے پیشوا مرزاغلام احمد قادیانی کی نسبت آپ نے لکھا ہے کہ انہوں نے نبوت کا دعویٰ مجازی طور پر کیا ہے اور ان کی کتاب ’’استفتائ‘‘ کی ایک عبارت نقل کی ہے جس میں آنحضرتﷺ پر نبوت ختم ہو جانے کی تصریح ہے۔ اس موقع پر دو باتیں جواب طلب ہیں۔ اوّل یہ کہ مرزاقادیانی نے جا بجا تمام نبیوں سے خاص کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اپنا افضل ہونا بیان کیا ہے اور اپنے الہام ووحی کو کتب الٰہیہ اور قرآن شریف کا ہم پایہ قرار دیا ہے۔ دیکھئے اسی کتاب حقیقت الوحی میں جس کے ضمیمہ کا آپ نے حوالہ دیا ہے۔ مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ: ’’اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے۔ وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کو جزئی فضیلت قرار دیتا تھا۔ مگر بعد میں خداتعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی۔ اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۵۵، خزائن ج۲۲ ص۱۵۳، مطبوعہ ۱۹۰۷ئ)