احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
صاحب شریعت نبی کا آنا بند ہے اور غیر صاحب شریعت جو آنحضرتﷺ کی شریعت کو منسوخ نہ کرے آسکتا ہے۔ ناظرین کرام! پر مخفی نہیں ہے کہ دھوکہ دہی وتحریف وبزرگان دین کے اقوال کی قطع برید امت مرزائیہ کا طرہ امتیاز ہے۔ یہ لوگ مذکورہ بزرگوں پر یہ اتہام لگاتے ہیں کہ یہ بزرگان دین جریان نبوت کے قائل تھے۔ شاید آپ سوال کریں کہ جب یہ بزرگ فرمارہے ہیں کہ صاحب شریعت نبی نہیں آئے گا۔ ایسا نبی آئے گا جو قرآن کو منسوخ نہ کرے اور شریعت محمدیہ کا متبع ہو اور نبوت قیامت تک جاری ہے۔ وغیرہ وغیرہ تو ان اقوال کا کیا مطلب ہے۔ سو غور سے سنئے کہ احادیث سے دو چیزیں ثابت ہیں۔ ۱… عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا آخری زمانہ میں نازل ہونا۔ ۲… دوسرے سچی خوابیں۔ کشف والہام یعنی سوتے یا جاگتے میں خداتعالیٰ کی طرف سے کسی بات کا دل میں ڈال دیا جانا۔ فرشتوں کا مؤمنین سے ملاقات کرنا اور ان کو صبر کی تلقین کرنا اور ان کو بشارت سنانا۔ سو بعض بزرگان دین کی کتب واقوال میں جو یہ پایا جاتا ہے کہ ایسا نبی نہیں ہوگا جو شریعت محمدیہ کا ناسخ ہو۔ بلکہ جب آپ کی شریعت کے حکم کے ماتحت ہو تو ختم نبوت کے منافی نہیں۔ یہ عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی کی طرف اشارہ ہے اور بزرگوں کے اس قول (جو آپ کی شریعت کا تابع ہو) کا مصداق سوائے عیسیٰ علیہ السلام کے اور کوئی نہیں۔ اگرچہ بعض بزرگوں کے اقوال سے ایک مفہوم کلی (جو نبی بھی آپ کی شریعت کا تابع ہو) سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن اس مفہوم کلی کا ایک ہی فرد عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ جیسا شمس (سورج) کہ مفہوم کلی ہے۔ لیکن اس کا فرد دنیا میں صرف ایک ہی ہے۔ ’’کما فی کتب المنطق‘‘ ان بزرگوں کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ نبی تابع شریعت محمدیہ سوائے عیسیٰ علیہ السلام کے اور بھی کوئی ہوگا اور آنحضرتﷺ کے بعد کسی کو نبوت عطاء کی جائے گی۔ کیونکہ ان بزرگوں نے جہاں عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی کا ذکر کیا ہے۔ وہاں بظاہر ختم نبوت کے خلاف جو شبہ واقع ہو سکتا تھا اس کو یہ کہہ کر دور کیا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام بوقت نزول آنحضرتﷺ کی شریعت کے تابع ہوںگے۔ چونکہ نبوت ان کو پہلے مل چکی ہے۔ لہٰذا یہ کسی طرح بھی ختم نبوت کے منافی نہیں۔ کیونکہ ختم نبوت کی مخالفت دوہی صورتوں سے ہوسکتی ہے۔ کسی کو آنحضرتﷺ کے بعد نبوت عطاء کی جائے یا نبوت تو آپ سے پہلے مل چکی ہو۔ لیکن بعض احکام کو منسوخ