احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
مثبت:… حدیث نہایت درجے کی ضعیف ہے اور قابل استدلال نہیں ہے۔ کیونکہ اس کی سند میں ابراہیم بن عثمان عیسیٰ ہے اور وہ متروک الحدیث ہے۔ ’’کما قال ابن حجر وسید جمال الدین المحدث فی روضۃ الاحباب‘‘ لیکن جس حدیث کی سند بالکل صحیح ہے اور اس میں حضرت ابراہیم ابن رسول اﷲ کی وفات کا ذکر ہے۔ اس سے ختم نبوت بالکلیہ روز روشن کی طرح ثابت ہوتی ہے۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں باب من سمی باسماء الانبیاء میں یہ حدیث ذکر کی ہے۔ ’’مات وھو صغیر ولو قضی ان یکون بعد محمدﷺ نبی لعاش ابنہ ولکن لا نبی بعدہ‘‘ {ابراہیم ابن رسول اﷲ فوت ہوگیا اور اگر آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نبی ہونا ہوتا تو آپ کا بیٹا زندہ رہتا۔ لیکن آپ کے بعد کوئی نہیں ہی نہیں ہے۔} اس حدیث کو ابن ماجہ نے بھی صحیح سند کے ساتھ اس باب میں ذکر کیا ہے۔ جس میں ’’لو عاش ابراہیم الحدیث‘‘ کو ذکر کیا ہے۔ لیکن آپ نے صحیح حدیث کو چھوڑ دیا جو اجراء نبوت بعد آنحضرتﷺ کی جڑ بالکلیہ کاٹتی ہے اور ختم نبوت کو روشن کرتی ہے۔ منکر:… حضرت صدیقہ عائشہؓ فرماتی ہیں۔ ’’قولوا انہ خاتم الانبیاء ولا تقولوا لا نبی بعدہ (درمنثور ج۵ ص۲۰۴، مجمع البحار)‘‘ مثبت:… اس کا جواب حضرت مغیرہ کے قول کی شرح میں گذر چکا ہے۔ ملاحظہ کر لیا جائے۔ منکر:… ’’انا سید الاولین والآخرین من النبیین ولا فخر‘‘ مثبت:… ثبوت ندارد۔ برتقدیر صحت آخرین وہ انبیاء ہیں جو پہلوں کی نسبت آخری ہیں نہ کہ آنحضرتﷺ کے بعد کے نبی اور حقیقی آخری آنحضرتﷺ ہی ہیں۔ منکر:… ’’قال رسول اﷲ للعباس فیکم النبوۃ والمملکۃ‘‘ کہ تم میں نبوت بھی ہوگی اور سلطنت بھی۔ مثبت:… تحریف سے کام نہیں چل سکتا۔ نبوت سے مراد آنحضرتﷺ اور خلفائے راشدین کا زمانہ ہے۔ اس کے لئے مندرجہ ذیل احادیث پر غور کیجئے۔ ۱… ’’عن النعمان بن بشیر وحذیفۃ قال قال رسول اﷲﷺ تکون النبوۃ فیکم ماشاء اﷲ ان تکون ثم یرفعہا اﷲ ثم تکون ملکا جبریہ