احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
۲… ہر ایک نبی اپنی قوم وامت کا باپ ہوتا ہے۔ جیسا کہ راغب اصفہانی نے مفردات میں کہا ہے کہ جو شخص کسی چیز کی ایجاد یا ظہور یا اصلاح میں سبب ہو۔ اس کو باپ کہا جاتا ہے اور اسی واسطے ہمارے نبی ﷺ کو مومنوں کا باپ کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں۔ ’’النبی اولیٰ بالمومنین من انفسہم وازواجہ امہاتہم وبعض القرأت ھواب لہم انتہی کلام الراغب‘‘ یعنی نبی مسلمانوں کے زیادہ قریب ہے۔ بہ نسبت ان کی جانوں کے اور آپ کی بیوئیں مسلمانوں کی مائیں ہیں اور بعض قرأتوں میں ہے کہ آپ مسلمان کے باپ ہیں۔ جب آپ کی بیوئیں مسلمانوں کی مائیں ہیں۔ تو ضرور آپ باپ ہوںگے۔ پس یہ کہنے سے کہ مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں۔ کسی کو یہ وہم ہوسکتا تھا کہ آپ روحانی باپ یعنی رسول بھی نہیں ہیں۔ ظاہر نظر میں یہ کہنے سے کہ آپ کسی مرد کے باپ نہیںہیں۔ حضورﷺ کی شان میںکمی کا اظہار ہے اور کفار کے اس طعن میں جو حضور پر کیا کرتے تھے کہ یہ ابتر (لاولد بے نام ونشان ہونے والا) ہے۔ ان کو ڈھیل دینا ہے کہ وہ خوب اعتراض کر کے دل خوش کریں۔ پس ان اوہام وشبہات کے ازالہ کے لئے ’’لکن رسول اﷲ وخاتم النبیین‘‘ لایا گیا ہے اور لکن عربی زبان میں اسی واسطے موضوع ہے کہ اس سے پہلے کلام میں جو شبہ پیدا ہوسکتا تھا۔ اس کا ازالہ کر دے۔ لہٰذا ’’لکن رسول اﷲ وخاتم النبیین‘‘ کہنے سے تمام شبہات زائل ہوگئے۔ پہلے شبہ کا ازالہ تو اس طرح ہوا کہ ’’لکن رسول اﷲ‘‘ کہہ کر آپ کے لئے رسالت ثابت کی اور رسول امت کا روحانی باپ ہوتا ہے۔ لہٰذا پہلے جملے یعنی ’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم‘‘ میں جسمانی باپ ہونے کی نفی ہوگی اور ’’ولکن رسول اﷲ‘‘ میں روحانی باپ ہونے کا ثبوت ہوگا۔ پس گویا کہ یوں کہاگیا کہ اگرچہ آپ جسمانی باپ نہیں ہیں۔ لیکن آپ روحانی باپ ہیں اور روحانی باپ اپنی روحانی اولاد پر زیادہ شفیق زیادہ مہربان ہوتا ہے۔ بہ نسبت جسمانی باپ کے پھر آپ میں شفقت کیوں نہیں ہوگی۔ اور دوسرے شبہ کا ازالہ بالکل واضح ہے کہ: ’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم‘‘ میں جسمانی باپ ہونے کی نفی ہے جو نبوت کے لئے لازم نہیں اور روحانی باپ ہونا نبوت کے لئے لازم ہے۔ سو اس کی نفی نہیں اور تیسرے شبہ کا ازالہ اس طرح ہوا کہ آپ رسول