احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
یہاں تک کہ ان کو زید بن محمد کہہ کر بلایا جاتا تھا۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ان کو زید بن حارثہ کہا جانے لگا۔ پھر جب کہ رسوم باطلہ جو کہ قوم میں رائج تھیں۔ ان کی مخالفت بہت بڑا دشوار امر تھا۔ بوجہ اس کے کہ مخالفت کرنے والا طعن وتشنیع وملامت کا نشانہ بن جاتا تھا اور ان کی مخالفت پر وہی شخص جرأت کر سکتا تھا۔ جو خدا کے حکم میں سوائے خدا کے کسی طعن وملامت کی پرواہ نہ کرے تو خدا تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کو زینب بنت جحش کے ساتھ نکاح کرنے کا حکم دیا جو کہ اس سے پہلے حضرت زید بن حارثہ آنحضرتﷺ کے متبنیٰ کے نکاح میں تھیں اور زید بن حارثہ نے ان کو طلاق دے دی تھی۔ جیسا کہ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’فلما قضی زید منہا وطراً زوجنکہا لکی لا یکون علی المؤمنین حرج فی ازواج ادعیاہہم اذا قضوا منہن وطرا (احزاب)‘‘ {پھر جب زید نے اس کو طلاق دے دی ہم نے آپ سے اس کا نکاح کردیا تاکہ مسلمانوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیبیوں کے بارے میں کچھ تنگی نہ رہے۔ جب وہ ان کو طلاق دے دیں۔} اور آنحضرتﷺ کا زینب سے نکاح فعلی تبلیغ تھی تاکہ مسلمان منہ بولے بیٹے کی بیوی کو حرام نہ سمجھیں اور اس سے نکاح کرنے سے نفرت نہ کریں۔ جب رسول نے نکاح کیا تو پھر اور کس مسلمان کی جرأت ہے کہ رسول کی سنت سے نفرت کرے۔ یہ عمدہ طریقہ ہے۔ اس رسم کے مٹانے کا الحاصل جب رسول اﷲﷺ نے خدا کے حکم سے حضرت زینبؓ سے نکاح کیا تو کفار کہنے لگے کہ یہ کیسا رسول ہے جس نے اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کر لیا تو خداتعالیٰ نے یہ آیت ’’ماکان محمداً ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین‘‘ اتاری۔ مطلب یہ ہوا کہ جب محمدﷺ تم مردوں میں سے کسی کے حقیقتاً باپ نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے بیٹے کی بیوی باپ پر حرام ہوتی ہے۔ تو پھر منہ بولے بیٹے کی بیوی سے طلاق کے بعد اگر انہوں نے نکاح کرلیا ہے تو یہ کون سی جرم کی بات ہوئی۔ جملہ: ’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم‘‘ اور ’’ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین‘‘ کا آپس میں کیا تعلق ہے تو جواب یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ محمدﷺ تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں تو یہاں چند شبہات پیدا ہونے کا احتمال تھا۔ ۱… جب آپؐ باپ نہیں ہیں تو باپ میں جو شفقت پدری ہوتی ہے۔ وہ بھی آپؐ میں نہیں ہوگی۔ حالانکہ نبی کی شفقت اپنی امت پر لوازم نبوت سے ہے۔