احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
ہے۔ اسی کا نام الہام ولایت ہے۔ یہ امت محمدیہ میں جاری ہے اور میرے علم ویقین میں مرزاقادیانی اسی کے مدعی تھے۔ وہ آنحضرتﷺ پر نبوت اور رسالت کو منقطع سمجھتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ۱۹۰۵ء میں علماء دین سے ایک استفتاء کیا۔ اس میں ذیل کی عبارت درج ہے۔ ’’والنبوۃ قد انقطعت بعد نبینا صلی اﷲ علیہ وسلم ولا کتاب بعد الفرقان الذی ھو خیر الصحف السابقۃ ولا شریعۃ بعد الشریعۃ المحمدیۃ بید انی سمیت نبیاً علی لسان خیر البریۃ وذلک امر ظلی من برکات المتابعۃ وما اری فی نفسی خیراً ووجدت کلما وجدت من ہذہ النفس المقدسۃ وما عنی اﷲ من نبوتی الا کثرۃ المکالمۃ والمخاطبۃ ولعنۃ اﷲ علی من اراد فوق ذلک وحسب نفسہ شیٔاً او اخرج عنقہ من الربقۃ النبویۃ وان رسولنا خاتم النبیین علیہ انقطعت سلسلۃ المرسلین فلیس حق احدٍ ان یدعی النبوۃ بعد رسولنا المصطفیٰ علی الطریقۃ المستقلۃ وما بقی بعدہ الاکثرۃ المکالمۃ۰ وھو بشرط الاتباع لا بغیر مبایعۃ خیر البریۃ وواﷲ ماحصل لی ہذا المقام الا من انوار اتباع الا شعۃ المصطفویۃ۰ وسمیت نبیا من اﷲ علیٰ طریق المجاز لا علی وجہ الحقیقۃ‘‘ (الاستفتاء ضمیمہ حقیقت الوحی ص۶۴، خزائن ج۲۲ ص۶۸۹) یہاں نہ صرف صفائی سے یہ کہا ہے کہ رسالت اور نبوت منقطع ہوگئی ہے۔ بلکہ یہ بھی اقرار کیا ہے کہ مجھے جو کچھ ملا اطاعت رسول میں ملا اور جس نبوت کو میں اپنی طرف منسوب کرتا ہوں وہ مجازی ہے نہ حقیقی اور اپنا ایمان وہ اس طرح لکھتے ہیں: ’’وبعزۃ اﷲ وجلالہ انی مؤمن مسلم وأمن باﷲ وکتبہ ورسلہ وملائکتہ وابعث بعد الموت وبان رسولنا محمد المصطفیٰﷺ افضل الرسل وخاتم النبیین‘‘ (حمامتہ البشری ص۸، خزائن ج۷ ص۱۸۴) اپنے دعویٰ کے متعلق جہاں تک مجھے علم ہے۔ جناب مرزاقادیانی کی یہ آخری تحریر ۱؎ ۱؎ مرزاقادیانی کی یہ تحریر ۱۸۹۳ء کی ہے۔ خواجہ صاحب اسے ’’آخری تحریر‘‘ بتا کر جھوٹ سے کام لے رہے ہیں۔ مرزاقادیانی نے ۱۹۰۰ء میں کھل کر نبوت کا دعویٰ کیا۔ اس کے بعد دعویٰ نبوت سے متعلق مرزاقادیانی کی بے شمار تحریریں ہیں۔