احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
ممالک عرب اور مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچادیا ہے۔ میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیرخواہ ہو جائیں اور مہدی خونی اور مسیح خونی کی بے اصل روایتیں اور جہاد کے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں۔ ان کے دلوں سے معدوم ہو جائیں۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۵، خزائن ج۱۵ ص۱۵۵) اسی کا نتیجہ ہے کہ جنگ عظیم میں جب ترکوں کی اسلامی حکومت بغداد سے اٹھی اور انگریزی حکومت غالب آئی تو قادیانی اخبار میں یہ نوٹ نکلا۔ ’’میں اپنے احمدی بھائیوں کو جو ہر بات میں غور اور فکر کرنے کے عادی ہیں۔ ایک مژدہ سناتا ہوں کہ بصرہ اور بغداد کی طرف جو اﷲتعالیٰ نے ہماری محسن گورنمنٹ کے لئے فتوحات کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اس سے ہم احمدیوں کو معمولی خوشی حاصل نہیں ہوئی۔ بلکہ سینکڑوں اور ہزاروں برسوں کی خوشخبریاں جو الہامی کتابوں میں چھپی ہوئی تھیں۔ آج ۱۳۳۵ھ میں وہ ظاہر ہو کر ہمارے سامنے آگئیں۔‘‘ (اخبار الفضل مورخہ ۱۰،۱۳؍اپریل ۱۹۱۷ء ص۳،۴) اس سے مرزاقادیانی کی پولیٹکل پوزیشن بھی کلیر ہو جاتی ہے کہ آپ مسلمانوں کے بڑے زبردست دشمن تھے۔ جناب مرزاقادیانی کا فرمان باالکل صحیح ہے۔ کیونکہ امیر امان اﷲ خان خلد اﷲ ملکہ وسلطنتہ کو اولیٰ الامر میں داخل کرنے سے اپنے مصنوعی مذہب کا خاتمہ ہوتا ہے۔ صاحب آپ کا مذہب تو یہ ہے کہ محمد رسول اﷲﷺ کی جو حدیث مرزاقادیانی کے الہام کے مخالف ہو اس کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائیے۔ نعوذ باﷲ من ہذا الکفر! پھر آپ مسلمہ بزرگوں کا نام کس منہ سے لیتے ہیں۔ جب آپ محمد رسول اﷲﷺ (فداوابی وامی) کی حدیث خواہ وہ اصح الکتب بعد کتاب اﷲ کی ہو۔ بڑی دلیری اور جرأت کے ساتھ ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں۔ تو بزرگ بچارے آپ کے آگے کیا حقیقت رکھتے ہیں۔ یہ باتیں محض سادہ لوح مسلمانوں کو بہکانے کی ہیں کہ ہم قرآن کو مانتے ہیں۔ حدیث کو مانتے ہیں۔ بزرگوں کو مانتے ہیں۔ درحقیقت آپ مرزاقادیانی کی بات کے سوا نہ قرآن کو مانتے ہیں نہ حدیث کو اور نہ سلف صالحین اور بزرگان دین کے اقوال کو۔ جو بات مرزاقادیانی کی تعلیم کے برخلاف ہو خواہ وہ صحیح حدیث ہو یا صحابہ کا اجماع ہو۔ یا بزرگان دین کا عقیدہ ہو۔ آپ اس کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں۔ سنئے! مرزاقادیانی فرماتے ہیں۔ ’’میرے اس دعویٰ کی حدیث بنیاد نہیں بلکہ قرآن