احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
مثبت:… ۱… سنئے لسان العرب میں ہے خاتمہم وخاتمہم آخرہم یعنی خاتم خواہ زیر سے ہو یا زبر سے دونوں کے معنے آخری کے ہیں۔ ۲… قاموس میں ہے والخاتم آخرالقوم کا لخاتم ومنہ قولہ تعالیٰ خاتم النبیین اے آخرہم۔یعنی خاتم کامعنی خاتم کی طرح آخری کے ہیں اور اسی معنی سے ہے خاتم النبیین۔ یعنی انبیاء میں سے آخری۔ ۳… ابوالبقانے کلیات میں کہا ہے وتسمیۃ نبینا خاتم الانبیاء لان الخاتم آخرالقوم! ترجمہ: ہمارے نبی کا نام خاتم الانبیاء اس لئے ہے کہ خاتم قوم کے آخری شخص کو کہتے ہیں۔ دیکھئے ان تینوں حوالوں میں آئمہ لغت نے کیسے صاف تصریح کردی ہے کہ خاتم ہو یا خاتم جب جمع کی طرف مضاف ہو تو اس کے معنی آخری کے ہوتے ہیں اور کسی نوع کا آخری فرد وہی کہلائے گا جس کے بعد اس نوع کا دوسرا فرد اس وصف کے ساتھ موصوف نہ ہو۔ جس وصف کے ساتھ پہلے افراد موصوف ہیں۔ مثلاً آخرالا ولاد اس کو کہیں گے جس کے بعد دوسرا لڑکا پیدا نہ ہو۔ اسی طرح آخرالنبیین اس کو کہیں گے جس کے بعد دوسرا نبی پیدا نہ ہو۔ فلاں آخر الاولاد کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اور سب مرچکے ہیں اور یہی باقی ہے۔ بلکہ یہ مطلب ہوتا ہے کہ صفت ولد کے ساتھ موصوف ہوتے ہیں۔ یہ سب سے آخری ہے۔ اس کے بعد صفت ولد کے ساتھ کوئی دوسرا موصوف نہیں ہوا۔ بعینہ آخرالنبیین اسی کو کہیں گے جو سب انبیاء کے بعد صفت نبوت کے ساتھ موصوف ہوا ہو اور اس کے بعد دوسرا صفت نبوت حاصل نہ کرسکے جو پہلے اس صفت سے موصوف ہوچکے وہ ہوچکے۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام وغیرہم۔ انبیاء علیہم السلام۔ جیسے آخرالاولاد کی موجودگی یا عدم موجودگی سے باقی اولاد کا مرنا لازم نہیں آتا۔ اسی طرح خاتم النبیین کی موجودگی یا عدم موجودگی سے باقی انبیاء علیہم السلام کا مرنا لازم نہیںآتا۔ گو واقع میں خواہ وفات پاگئے ہوں یا کوئی ان میں سے زندہ ہو۔ علیٰ ہذا القیاس آخر الجالسین، آخر الراحلین۔ آخر الذاھبین وغیرہ میں بھی یہی مراد ہوتی ہے کہ مضاف الیہ کی وصف آخر پر ختم ہے۔ کیا آپ کا مطالبہ پورا ہوا یا نہیں۔ ’’فہل انتم مسلمون‘‘ منکر:… میرا یہ سوال سنتے ہی مولوی صاحب کے حواس باختہ ہوگئے اور سوائے خاموشی کے کوئی جواب نہ دے سکے۔