احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
نہیں ہوسکتے۔ یہ الزام جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی ماں پر لگائے گئے تھے یہ صحیح نہیں ہے۔ بلکہ ان معنوں میں وہ مس شیطان سے پاک ہیں اور اس قسم کے پاک ہونے کا واقعہ کسی اور نبی کو کبھی پیش نہیں آیا۔‘‘ (دافع البلاء ص آخیر حاشیہ) ناظرین عبارت پر غور کریں۔ مرزاقادیانی یحییٰ علیہ السلام کو عیسیٰ علیہ السلام سے افضل قرار دیتے ہیں اور وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ شراب خوری، بے تعلق جوان عورت سے تعلق، فاحشہ عورت کی کمائی سے عطر کا استعمال، فاحشہ عورت کا اپنے ہاتھوں یا سر کے بالوں سے اس کے بدن کو چھونا، اپنے گناہوں سے کسی کے ہاتھ پر توبہ کرنا وغیرہ سے پاک اور بری تھے۔ تو اس سے صاف معلوم ہوگیا کہ مرزاقادیانی کے نزدیک یہ تمام برے کام عیسیٰ علیہ السلام میں نعوذ باﷲ موجود تھے اور اگر عیسیٰ علیہ السلام بھی یحییٰ علیہ السلام کی طرح مرزاقادیانی کے نزدیک ان برے کاموں سے بری ہیں۔ جیسا کہ واقع میں ایسا ہی ہے تو پھر یحییٰ علیہ السلام ان برے کاموں سے بری اور پاک ہونے کی وجہ سے افضل کیسے ہوئے؟ اور پھر مرزاقادیانی کا یہ فرمانا کہ اسی وجہ سے خدانے قرآن میں یحییٰ علیہ السلام کا نام حصور (معصوم وپاک دامن) رکھا۔ مگر مسیح کا یہ نام نہ رکھا۔ کیونکہ ایسے قصے اس نام کے رکھنے سے مانع تھے۔ صاف بتلارہا ہے کہ مرزاقادیانی کے نزدیک یہ سب برے کام عیسیٰ علیہ السلام میں موجود تھے۔ کیونکہ بقول مرزاقادیانی خدا نے ان برے قصوں کا اعتبار کر کے مسیح کا نام حصور (معصوم) نہیں رکھا اور خدا جھوٹے قصوں کا اعتبار نہیں کیا کرتا اور مرزاقادیانی کا یحییٰ علیہ السلام کے متعلق یہ فرمانا کہ ان کا معصوم (پاک ہونا) بدیہی امر ہے۔ صاف بتارہا ہے کہ مرزاقادیانی کو عیسیٰ علیہ السلام کے پاک ہونے میں شک ہے۔ حالانکہ کوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتا۔ جب تک ہر ایک نبی کو معصوم تسلیم نہ کرے۔ اور نیز یہ برے کام مرزاقادیانی ہی کے نزدیک یحییٰ علیہ السلام میں موجود نہیں بلکہ بقول مرزاقادیانی خدا بھی ان قصوں کو صحیح اور حق جانتا ہے۔ جن کی بناء پر عیسیٰ علیہ السلام کو قرآن میں حصور (معصوم) نہ کہا۔ اس میں مرزاقادیانی نے عیسیٰ علیہ السلام کو تو گالی دی ہی ہے۔ مگر اﷲتعالیٰ کی جناب اقدس پر بھی ہاتھ صاف کردیا۔ یعنی ایسے لوگ بھی جورنڈیوں سے ایسا میل جول رکھیں جو مرزاقادیانی کے نزدیک بھی کوئی پرہیزگار آدمی نہ رکھے۔ وہ لوگ اﷲتعالیٰ کے نزدیک نبی بھی ہوتے ہیں اور رسول بھی اورمقرب بھی اور وجیہا فی الدنیا والاخرہ بھی۔ اس سے نہ کوئی نبی قابل اعتبار رہتا ہے اور نہ قرآن اور نہ معاذ اﷲ خود خدا۔ تو پھر احادیث کی کیا حقیقت ہے