احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ سب مقربوں سے بڑھ کر تھے۔ بلکہ اس بات کا امکان نکلتا ہے کہ بعض مقرب ان کے زمانہ کے ان سے بہتر تھے۔ ظاہر ہے کہ وہ صرف بنی اسرائیل کی بھیڑوں کے لئے آئے تھے اور دوسرے ملکوں اور قوموں سے ان کو کچھ تعلق نہ تھا۔ پس ممکن بلکہ قریب قیاس ہے کہ بعض انبیاء جو لم نقصص میں داخل ہیں۔ وہ ان سے بہتر اور افضل ہوںگے اور جیسا کہ حضرت موسیٰ کے مقابل پر آخر ایک انسان نکل آیا۔ جس کی نسبت خدا نے ’’علمناہ من لدنا‘‘ فرمایا تو پھر حضرت عیسیٰ کی نسبت جو موسیٰ سے کمتر اور اس کی شریعت کے پیرو تھے اور خود کوئی کامل شریعت نہ لائے تھے اور ختنہ اور مسائل فقہ اور وراثت اور حرمت خنزیر وغیرہ میں حضرت موسیٰ کی شریعت کے تابع تھے۔ کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ وہ بلااطلاق اپنے وقت کے تمام راست بازوں سے بڑھ کر تھے۔ جن لوگوں نے انہیں خدا بنایا۔ جیسے عیسائی یا وہ جنہوں نے خواہ مخواہ خدائی صفات انہیں دی ہیں۔ جیسا کہ ہمارے مخالف اور خدا کے مخالف نام کے مسلمان وہ اگر ان کو اوپر اٹھاتے اٹھاتے آسمان پر چڑھا دیں یا عرش پر بٹھا دیں۔ یا خدا کی طرح پرندوں کا پیدا کرنے والا قرار دیں تو ان کو اختیار ہے۔ انسان جب حیا اور انصاف کو چھوڑ دے تو جو چاہے کہے اور جو چاہے کرے۔ لیکن مسیح کی راست بازی اپنے زمانہ میں دوسرے راست بازوں سے بڑھ کر ثابت نہیں ہوتی۔ بلکہ یحییٰ علیہ السلام نبی کو اس پر ایک فضیلت ہے۔ کیونکہ وہ شراب نہیں پیتا تھا اور کبھی نہیں سنا گیا کہ کسی فاحشہ عورت نے آکر اپنی کمائی کے مال سے اس کے سر پر عطر ملا تھا۔ ہاتھوں اور سر کے بالوں سے اس کے بدن کو چھوأ تھا یا کوئی بے تعلق جوان عورت اس کی خدمت کرتی تھی۔ اسی وجہ سے خدا نے قرآن میں یحییٰ کا نام حصور (معصوم) رکھا۔ مگر مسیح کا یہ نام نہ رکھا۔ کیونکہ ایسے قصے اس نام کے رکھنے سے مانع تھے اور پھر یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یحییٰ کے ہاتھ پر جس کو عیسائی یوحنا کہتے ہیں۔ جو پیچھے ایلیا بنایا گیا۔ اپنے گناہوں سے توبہ کی تھی اور ان کے خاص مریدوں میں داخل ہوئے تھے اور یہ بات حضرت یحییٰ کی فضیلت کو ببداہت ثابت کرتی ہے۔ کیونکہ بمقابل اس کے یہ ثابت نہیں کیاگیا کہ یحییٰ نے بھی کسی کے ہاتھ پر توبہ کی تھی۔ پس اس کا معصوم ہونا بدیہی امر ہے اور مسلمانوں میں یہ جو مشہور ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اور اس کی ماں حس شیطان سے پاک ہیں ان کے معنی نادان لوگ نہیں سمجھتے۔ اصل بات یہ ہے کہ پلید یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی ماں پر سخت ناپاک الزام لگائے تھے اور دونوں کی نسبت نعوذ باﷲ شیطانی کاموں کی تہمت لگاتے تھے۔ سو یہ اس امر کا ردّ ضروری تھا۔ پس اس حدیث کے اس سے زیادہ کوئی معنی نہیں