احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
مرزا قادیانی نے لکھا تھا کہ: ’’ہمارا صدق یا کذب جانچنے کے لئے ہماری پیشین گوئی سے بڑھ کر کوئی محک امتحان نہیں ہوسکتا۔‘‘ (آئینہ کمالات ص۲۸۸، خزائن ج۵ ص ایضاً) ان کے پیش کردہ معیار صدق وکذب کے مطابق ان پیشین گوئیوں سے دنیا نے ان کا امتحان لیا۔ پیشین گوئیاں جھوٹی نکلیں۔ لہٰذا دنیا ان کو جھوٹا سمجھنے پر مجبور ہے۔ مگر حافظ صاحب حب مرزا میں ظلمت کذب کو ہنوز صبح صادق ہی سمجھ رہے ہیں جو فرماتے ہیں کہ:’’ہم خدا کی قسم کھاکر کہتے ہیں، جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ مرزا قادیانی کی ایک بھی پیشین گوئی نہیں جو خدا سے علم پاکر کی گئی ہو اور وہ غلط یا جھوٹی ہوئی۔ص۱۷۴ ‘‘ پس مولوی صاحب نے جو نتیجہ نکالا تھا وہ صحیح ہے کہ مرزا قادیانی اپنے دعویٰ میں کاذب ہیں۔ ۸… مسیح ابن مریم علیہما السلام کی حسب آیت فلما توفیتنی وفات ہوچکی۔ فقط! مولوی صاحب نے اس آیت اور دوسری دوآیت سے بھی حیات مسیح ثابت کرکے مرزائی کا اچھا جواب دیا ہے۔ جواب الجواب میں حافظ صاحب سے کچھ نہ ہوسکا۔ بس دعویٰ کردیا کہ خدا نے دوجگہ تو صراحتاً اور اکثر جگہ اشارتاً حضرت مسیح کی وفات کا ذکر کرکے اس قضیہ نامرضیہ کا فیصلہ کردیا۔ (ص۸۷) مگر صراحتہً اور اشارۃ والی نقل نہ کی۔ ہان دو ہدایات البتہ کی۔ اول یہ کہ (ص۸۰) پر ہدایت کی کہ مرزا قادیانی کی کتاب نزول المسیح اور مسیح ہندوستان میں دیکھئے۔ جواباً ادھر سے بھی گزارش ہے کہ قاضی سلیمان صاحب مرحوم کی کتاب تائید الاسلام اور غایۃ المرام مولوی ابراہیم صاحب کی کتاب شہادۃ القرآن ہر دو حصہ اور الخبرالصحیح عن قبرالمسیح مولوی حکیم خدا بخش صاحب کی کتاب البیان الصحیح فی حیاۃ المسیح، مولوی محمدادریس صاحب کاندھلوی مدرس ازہرہند دارالعلوم دیوبند کی کتاب کلمتہ اﷲ فی حیات روح اﷲ، مولانا محمدعبدالشکور مدیرالنجم لکھنوی کی بمقابلہ مرزائیاں بحث حیات حضرت مسیح بن مریم۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی مدظلہ العالی کی الخطاب الملیح فی تحقیق المہدی والمسیح وغیرہ ملاحظہ فرمائے۔ (نوٹ: یہ اکثر کتب احتساب قادیانیت کی سابقہ جلدوں میں شائع ہوچکی ہیں۔ مرتب) دوم یہ کہ (ص۹۷) پر چیلنج دیا ہے کہ حضرت مسیح ناصری فوت ہوچکے اور فوت شدہ دنیا میں واپس نہیں آسکتا۔ اگر آپ لوگوں میں اس فیصلہ کے توڑنے کی قوت ہے تو حیات مسیح اور ان کا