احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
۴… مرزاقادیانی کا یہ طرز عمل اور جماعت کے لئے تعلیم ان کی صداقت پر ایسی زبردست دلیل ہے کہ جس کے بعد کسی دلیل اور ثبوت کی ضرورت نہیں رہتی۔ اگر ان کی تمام پیشین گوئیاں بھی غلط یا جھوٹی ہوں تو ہمیں کسی کی پرواہ نہیں۔ ہمارے لئے ان کی اتنی ہی تعلیم ۱؎ کافی ہے۔ جس پر چل کرہم منزل مقصود پر پہنچ سکتے ہیں۔ حافظ صاحب سے کوئی پوچھے کہ نبی کی دنیاوی پیشین گوئی پوری ہونے کے عینی مشاہدہ پر اظہار صدق نبوت اور ایمان وہدایت خلق کا وہ انحصار اب کیا ہوا۔ کسی کو ٹھوکر لگی اور کون منہ کے بل گرا۔ آپ یا مولوی صاحب؟ یہ امر قابل غور ہے کہ جب حافظ صاحب کے نزدیک بھی پیشین گوئی صادق وکاذب یا نبی اور غیر نبی میں امر مشترک ہے اور اسی لئے بقول حافظ صاحب یہ ہوسکتا ہے کہ سچے نبی کو نجومی اور نجومی کو نبی سمجھ لیا جاوے تو کیا وجہ ہے کہ وہ صادق یا نبی کے لئے تو دلیل صداقت وبرہان نبوت ہو۔ مگر کاذب یا غیر نبی کے حق میں ثبوت صدق وحجت نبوت نہ ہو۔ یہ میں نے مولوی صاحب کے سوال کی تقریر کی ہے۔ اس سوال پر حافظ صاحب نے بہت برہم ہوکر مولوی صاحب کو لکھا کہ اس قدر جرأت سے کام لیا کہ نبیوں اور نجومیوں کو ایک اسٹیج پر جا بٹھایا۔ آپ کا یہ ناروا فعل انبیاء کی شان میں سخت گستاخی اور ان کی توہین کا موجب ہے اور آپ کی یہ بات ہمارے لئے بالکل ناقابل تسلیم ہے۔ مگر خود جو نبی کونجومی اور نجومی کو نبی سمجھا جا سکنے کی وہی جرأت کی اسکی خبر ہی نہیں۔ سوال کا جو جواب مرزاقادیانی نے اپنی تصانیف میں دیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ کاذب یا غیرنبی پیشین گوئی کنندہ دوقسم ہوتے ہیں۔ ایک مدعی نبوت دوسرے غیر مدعی نبوت۔ قسم اوّل مفتری علی اﷲ ہے۔ اگر ایسا کاذب منجانب اﷲ پیشین گوئی بیان کرنے کا دعویٰ کرے تو خدا اس کو بلا مہلت ہلاک کرے گا اور وہ کامیاب نہ ہوگا۔ حافظ صاحب نے بھی اپنے پنجابی نبی کی اتباع کی ہے کہ اگر کوئی شخص نبوت کا جھوٹا ۱؎ یعنی مرزاقادیانی بلفظ ’’اللہم انصر من نصر دین محمد‘‘ خود دعاء بددعا کرتے اور اپنی جماعت کو اس کی تلقین فرماتے جو مرزائی اپنی پنجگانہ نمازوں میں اس کا بکثرت ورد رکھتے ہیں۔ مرزاقادیانی کے اسی طرز عمل کو حافظ صاحب ان کی نبوت وصداقت کی دلیل کہہ رہے ہیں۔