احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
۔ مگر خود بجائے حقیقت لکھنے کے بطور الزام بلا نقل عبارت حضورﷺ پر اعتراض کیا کہ آپ کی پیشین گوئی پوری نہیں ہوئی۔ پھر ص۱۱۶ پر یہ عنوان قائم کیا۔ پیشین گوئیوں کی اصل حقیقت کیا ہے۔ مگر یہاں بھی اظہار حقیقت کی جگہ لگے۔ پیشین گوئی کی تقسیم کرنے کہ چار قسم ہے۔ جس کو سابقہ نقل کرچکا ہوں اوروہیں ان کی وہ عبارت بھی درج کر چکا ہوں۔ جن میں مذکور ہے کہ: ۱… اکثر پیشین گوئیاں مبنی براستعارہ ہوتی ہیں۔ (ص۱۰۸، ۱۶۰) ۲… جن کی اصل حقیقت قبل از وقت ملہم من اﷲ پر بھی منکشف نہیں ہوتی۔ (ص۱۱۲) ۳… پیشین گوئیوں کا قبل از وقت نبیوںکو بھی صحیح علم نہیں دیا جاتا۔ (ص۱۱۳) ۴… پیشین گوئی کی ہر قسم بینات وغیرہ میں نبی سے اجتہادی غلطی ہوتی ہے۔ (ص۱۱۶) ۵… ان سے اجتہادی غلطی ضروری ہے۔ (ص۱۱۴) ۶… ان سے خود خدا اجتہادی غلطی کراتا ہے۔ (ص۱۱۷) ۷… شیطان کو رخنہ اندازی کاموقع دیا جاتا ہے کہ نبی کے اجتہاد میں اپنی طرف سے آمیزش کردے۔ (ص۱۱۵) ناظرین! ذرا تصور کا پہلا رخ پھر دیکھ لیں جس میں حافظ صاحب نے کس شدومد سے پیشین گوئی کو دلیل نبوت ذریعہ ہدایت اور ایمان کا موقوف علیہ قرار دیا تھا۔ مگر اب دوسرے رخ میں اسی کو اس جدوجہد سے ایسا مشکل الفہم، مشکوک اور ناقابل اعتبار بنادیا کہ اسی بناء پر انہیں خود لکھنا پڑا کہ: ۱… نبی میں یہ صفت بھی ہونی چاہئے کہ کبھی جھوٹ نہ بولا ہو۔مگر نبی کے لئے پیشین گوئیوں کا کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔ ۲… خدا نے پیشین گوئیوں کا راستہ ہی صاف (مطلب یہ کہ خدا نے کہہ دیا کہ پیشین گوئی دلیل نبوت نہیں ہے۔ اب دیکھا ہے آپ خدا کی بھی مانتے ہیں یا نہیں) کردیا کہ اگر کسی پیشین گوئی کے خلاف بھی دیکھو تو جلدی نہ کرو کہ مدعی نبوت کی تکذیب کرنے لگو۔ بلکہ پیشین گوئی کے تمام پہلوؤں پر غور کرو۔ پھر بھی سمجھ میں نہ آئے تو پیشین گوئی کے پیچھے نہ پڑو۔ نبی کی مقدس اورمجرب تعلیم سے اس کی نبوت پر ایمان رکھو۔ اس کے جھوٹا ہونے کا خیال بھی نہ کرو۔ ۳… نبی کی تعلیم میںضرور کوئی بات ایسی بھی ہوتی ہے جس کے مقابلہ پر اگر ظاہر بین لوگوںکی نظروں میں اس کی ہزاروں پیشین گوئیاں بھی غلط اور جھوٹی ثابت ہوں تب بھی صرف اس ایک بات کی وجہ سے اس مدعی نبوت پر ایمان لے آنا چاہئے۔