احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
کامل مشاہدہ کی ضرورت ہے اور مشاہدہ دنیاوی پیشین گوئیوں کے پورا ہونے پر منحصر ہے۔ جب لوگ دنیا میں اس نبی کی باتوں کو پورا ہوتے دیکھتے ہیں تو معاً وہ اس نتیجہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ بیشک یہ سچا نبی ہے اورجو کچھ اس نے عالم آخرت کے متعلق خبر دی ہے وہ سب سچ اور برحق ہے۔ ص۸۵ اوّل یہ معلوم رہے کہ حقیقتاً خبر کا تعلق واقعہ گذشتہ سے اور پیشین گوئی کا واسطہ واقعہ آئندہ سے ہوتا ہے۔ خبر کا اطلاق پیشین گوئی پر مجاز ہے۔ پیشین گوئی کی حقیقت واقعہ آئندہ کا قبل از وقت بیان کرنا ہے۔ پیشین گوئی کا کرنا اور چیز ہے پیشین گوئی کا پورا ہونا امر آخر ہے۔ پیشین گوئی بوحی الٰہی نبی بھی کرتے ہیں اور نجوم، رمل، جعفر وغیرہ کے ذریعہ سے غیرنبی بھی کرتے ہیں۔ پیشین گوئیاں دونوں کی پوری ہوتی ہیں۔ مگر نبی کی سب اور غیر نبی کی کم۔ نیز نبی کی پیشین گوئی کا پورا ہونا ضروری ہے اور غیر نبی کا غیر ضروری۔ غالباً حافظ صاحب کو اس سے اختلاف نہ ہوگا اور نہ ہونا چاہئے۔ اب منقولہ عبارت میں تلاش کیجئے پیشین گوئی کرنا یا اس کا پورا ہونا دلیل نبوت ہے۔ اس کی دلیل اس میں یہاں ہے؟ عبارت کاماحصل تو صرف یہ ہے کہ: ۱… نبی پر پیشین گوئی کرنا فرض ہے۔ ۲… اس کی دنیاوی پیشین گوئی پوری ہونا ضروری ہے۔ ۳… دنیاوی پیشین گوئی پوری ہوتے دیکھ کر لوگ اس کو سچا نبی سمجھتے ہیں۔ بھلا اس میں سے کون سی بات دلیل ہے؟ پہلا امر خود ایک جدید دعویٰ ہے جو بلادلیل ہے۔ دوسرا امر گو صحیح ہو مگر دلیل نہیں۔ تیسرا امر آپ کی مرزائی جماعت کے لئے دلیل ہوتو ہو ہمیں تو اس کی ضرورت ہے کہ جس طرح مرزاقادیانی نے اپنی پیشین گوئی کو اپنے لئے معیار صداقت قرار دیا اور اپنی نبوت کے لئے دوسروں کے سامنے اس کو بطور دلیل پیش کیا۔ قرآن وحدیث سے اسی طرح حضورﷺ کی پیشین گوئی دکھلائے جس کو حضورﷺ نے اپنا معیار صداقت بتاکر اوروں کے سامنے بطور دلیل نبوت پیش کیا ہو۔ ’’فان لم تفعلوا فاتقوا النار‘‘ حافظ صاحب کی مذکورہ عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ نبی کی نبوت اور اس کی صداقت اس کی پیشین گوئی خصوصاً دنیاوی پیشین گوئی کے پوری ہونے پر موقوف ہے اور اس پر ایڑی سے چوٹی تک کا زور لگایا ہے۔ مگر اب انہیں کی دوسری عبارت سے اس کے برعکس تصور کا دوسرا رخ بھی دیکھنے کا قابل ہے۔ فرماتے ہیں ص۳۰ پر مولوی صاحب کو لکھا کہ نبوت کے بعد دوسری ٹھوکر پیشین گوئی میں اس کی حقیقت نہ سمجھنے کی وجہ سے لگی۔