احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
عبارت خصوصاً تعریف کے بیان لطائف میں طوالت ہوگی۔ مگر یہ ظاہر کرنا ضروری ہے کہ جیسے پہلے نبی کی نبوت سے تعریف کی تھی۔ ویسے ہی اب رسول کی تعریف کر دی۔ ایسی مسلسل غلطی میں کروں تو یقینا علماء مرزائیہ اس کا سب سہو کو نہیں بلکہ جہل کو قرار دیںگے۔ مگر حافظ صاحب کو اصلاح دعا بشارت اور مدد دینے والوں کی طرح وہ کاہے کو کچھ کہیںگے۔ حافظ صاحب کا مقصود یہ ظاہر کرتا ہے کہ نبی ورسول میں کچھ فرق نہیں جو جمہور معتزلہ کا مذہب ہے۔ مگر وہ اظہار مدعا پر قادر نہیں ہیں۔ کیونکہ لفظاً فرق تو ظاہر ہے۔ معناً فرق خود انہوں نے تعریف میں کردیا ہے۔ یعنی اصلاح کی قید رسول کی تعریف میں ہے۔ مگر نبی کی تعریف میں نہیں۔ پھر وہی نبی صاحب شریعت آزاد اور نبی بلاشریعت ماتحت بھی کہتے ہیں۔ باایں ہمہ کہتے جاتے ہیں کچھ فرق نہیں۔ مولوی صاحب کی طرح آزاد اور ماتحت کا فرق جب آپ کو تسلیم ہے تو ان کی طرح شارع کی طرف سے کوئی ایسا لفظ آپ بھی پیش کیجئے جس سے مصداقاً بھی یہ فرق ظاہر ہو۔ ہمارے پاس تو رسول کا لفظ ہے جس کی دلیل یہ ہے۔ ’’وما ارسلنا من رسول ولا نبی‘‘ {اور نہیں بھیجا ہم نے کوئی رسول اور نہ نبی۔} آیت ہذا میں رسول کے بعد نبی کا ذکر بغرض تعمیم بعد التخصیص ہے۔ حضرت ابوذرؓ حضور ﷺ سے راوی ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ: ’’کان الانبیاء مائۃ الف واربعۃ وعشرین الفا وکان الرسل خمسۃ عشر وثلثمائۃ رجل منہم اولہم اٰدم الیٰ قولہ اخرہم محمد‘‘ {انبیاء ایک لاکھ چوبیس ہزار ہوئے اور رسول تین سو پندرہ۔ ان میں سے اوّل آدم اور آخر محمد ہیں۔} حافظ صاحب! مجھے حیرت ہے کہ آپ نے ص۱۶۴ پر آخرکس بھروسہ پر اپنی غلط تعریف کو اصلی تعریف لکھا اور بنیاد پر مولوی صاحب کی صحیح اور مدلل تعریف کو ہرنی نامہ کہہ کر مضحکہ اڑایا ہے؟ یہ تو تعریف کا حال تھا اب اس دلیل کو بھی دیکھنا چاہئے جس کے لئے ایسی غلط تعریف کی گئی ہے۔ یعنی پیشین گوئی کا دلیل نبوت ہونا۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں۔ ہر نبی کو اپنی صداقت منوانے کے لئے نبوت یعنی پیشین گوئیوں کا کرنا ضروری ہی نہیں بلکہ فرض ۱؎ہے۔ کیونکہ نبی اور نبوت دونوں لازم وملزوم ہیں۔ ص۸۴ نبی کے لئے پیشین گوئیوں کا کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔ وہ ضرورت یہ ہے کہ نبی دو قسم کی پیشین گوئیاں کرتا ہے۔ کچھ دنیا کے متعلق،کچھ آخرت کے متعلق۔ چونکہ خرت کامعاملہ مخفی اور صیغہ راز میں ہے۔ اس پر ایمان ویقین لانے کے لئے ایک