احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
لللّٰہ! پس مولوی صاحب کا یہ فرمانا کہ مرزاقادیانی کا اپنے کو اسمہ احمد کا مصداق بتانا ہی ان کے کاذب ہونے کی دلیل ہے۔ حق اور بجا ہے۔ دوسرے حصہ کی پہلی بات کہ پیشین گوئی کی صحت، دلیل صداقت نہیں ہے۔ حافظ صاحب نے اس کے متعلق کچھ گہر افشانی کی ہے۔ مگرایسی کہ نہ کہنا ہی بہتر تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ واقعی بالکل حافظ صاحب ہی ہیں اور علوم دینیہ سے قطعاً نابلد ہیں۔ ورنہ ذی علم سے تو یہ طرز بعید ہے۔ خیر سنئے اصل قصہ یہ ہے کہ مرزاقادیانی نے جب دعویٰ کیا کہ میں مجدد،مہدی، مسیح،نبی، رسول وغیرہ ہوں اور ثبوت میں پیش کیاکہ میری پیشین گوئیاں صحیح ہوتی ہیں تو چونکہ یہ اس قاعدہ کو تسلیم کر لینے پر مبنی تھا کہ پیشین گوئی کا پورا ہونا دلیل نبوت ہے۔ حالانکہ یہ غیر مسلم ہے۔ لہٰذا اصل بناء کے غلط ہونے کی وجہ سے ادھر سے علماء اسلام نے جواب دیا کہ آپ کے دعویٰ کی دلیل غیر صحیح ہے۔ یہی مولوی صاحب نے یہی لکھا تھا۔مگر حافظ صاحب ہیںکہ مرزاقادیانی کی تقلید میں ہمیںغلط قاعدہ کو صحیح منوانے کے درپے ہیں اور اس کے لئے اوّل نبوت کی تعریف کرتے ہیں کہ مولانا نبی تو کہتے ہیں اس کو ہیں جو دعویٰ نبوت کرے ۱؎۔ (نور ہدایت ص۸۴، خزائن ج۲۲ ص۸۷) علمی دنیا میں فن معقول کا یہ قانون مشہور اور مسلم ہے کہ شیٔ کی تعریف بالمعروف جائز ہے اور بالمجہول ناجائز۔ لیکن مرزائی نہ معلوم کس دنیا میں رہتے ہیں۔ جہاں الٹی ہی گنگا بہتی ہے۔ چنانچہ خود مرزاقادیانی ہی کو دیکھئے۔ بقول خود وہ نبی ہیں۔ ایسے کہ قرآن ان کے منہ کی باتیں ہیں۔ (حقیقت الوحی ص۸۴، خزائن ج۲۲ ص۸۷) الفاظ قرآنی دہقانی ہیں۔ قرآن پر ان کا کشف حاوی ہے۔ ان کے نزدیک قرآن میں قواعد صرف ونحو کا التزام بدعت ہے۔ (مناظرہ دہلی ص۶۱) اور عیسیٰ ہیں ایسے کہ قرآن میں غلطیاں نکالیںگے۔ یہی حال ان کے امتی حافظ صاحب کا ہے کہ ان کی کتاب صرف ونحو کے قاعدوں سے معرا، مولویانہ باتوں سے مبرا تو تھی ہی اب معلوم ہوا کہ معقولی جھگڑوں سے بھی خالی ہے کہ نبی کی نبوت سے تعریف بالمجہول کرتے ہیں۔ اسی لئے بلا فصل آگے اس کی انہیں یوں تشریح کی ضرورت پیش آئی کہ: ’’یعنی خدا کی طرف سے جو غیب کی باتیں لوگوں کو بتائے۔‘‘ اور اسی کو پیشین گوئی کہتے ہیں۔ تو آپ کی اس تشریح کے مطابق نبی کی تعریف یوں بھی ہوئی کہ نبی وہ ہے جو خدا کی طرف سے غیب کی باتیں بتائے اور پیشین گوئی ۱؎ دنیا میں الاشیاء تعرف بضدادہا مشہور ہے۔ مگر اس تعریف سے معلوم ہوا کہ مرزائیوں کا ’’بعینہا‘‘ پر عمل ہے۔