احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
بھلا اس گپ کی بھی کچھ حد ہے کہ بموجب ارشاد حضورﷺ آپ سے مرزاقادیانی جدا نہیں۔حافظ صاحب اگر آپ سچے ہیں تو ذرا ہمت کر کے پتہ دیجئے کہ حضورﷺ نے ایسا کہاں فرمایا ہے؟ ہاں یہ بھی فرمائیے کہ مرزاقادیانی کے سوا اب حضورﷺ کا حقیقی وارث اور تمام روحانی املاک کا مالک کوئی اور بھی ہوا یا نہیں۔ اگر ہوا خصوصاً جس کا اسم ذات احمد ہو تو انہوں نے اس پیشین گوئی کا مصداق اپنے کو اوروں نے ان کو کیوں نہیں نہ سمجھا اور خود حضورﷺ نے بذریعہ وحی یا خبر ہونے پر بھی خبر کیوں نہ دی اور اگر نہیں ہوا تو ذرا اپنے مقولہ کو یاد کیجئے کہ حضورﷺ کے بعد ان کا متبع کامل نبی ہوگا۔ پھر نمبرچار میں اپنے بھائی مرزائی کی پیش کردہ مجددین کی فہرست دیکھئے۔ اس کے بعد مباحثہ لدھیانہ کے موقعہ پر سردار بچن سنگھ حکم اور میر قاسم علی صاحب مرزائی مناظر کا (جو مولوی ثناء اﷲ صاحب کے مدمقابل تھے) یہ سوال وجواب ملاحظہ فرمائیے۔ سوال… آیا مرزاقادیانی کا دعویٰ دیگر انبیاء کے ہم رتبہ وہم پلہ ہونے کا تھا یا کم وبیش؟ جواب… اسلام میں انبیاء دو قسم کے ہیں۔ ایک صاحب شریعت وصاحب امت۔ دوم جو اسی نبی اور اسی شریعت کے ماتحت ہوں۔ پہلی قسم کی مثال حضرت محمدﷺ نبی اسلام کی ہے۔ دوسری مثال حضرت یحییٰ۔ مرزاقادیانی قسم دوم کے نبی تھے۔ سوال…ان دونوں اقسام کے انبیاء میں روحانیت کے لحاظ سے کچھ فرق ہوتا ہے اور کیا؟ جواب… ہاں اوّل قسم کے انبیاء پورے کمال کو پہنچے ہوئے اور قسم دوم کے ان سے کم درجے پر ہوتے ہیں۔ جیسا کہ مالک اور نوکر کی حیثیت۔ سوال… حضرت محمدصاحب کے بعد آپ کی مقرر کردہ قسم دوم میں کون کون نبی ہوئے ہیں؟ جواب… ہمارے عقیدہ میں جتنے نائب (خلفاء یا مجددین) حضرت محمد صاحب کے بعد ہوئے ہیں وہ سب کے سب قسم دوم کے نبی تھے۔ جیسا کہ حضرت محمد صاحب نے فرمایا ہے۔ ’’علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل‘‘ میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی مانند ہیں۔ سوال… قسم دوم کے انبیاء بھی صاحب وحی والہام ہوتے ہیں؟ جواب… ہاں۔ (منقول از رسالہ فاتح قادیان(روئیداد مباحثہ لدھیانہ) ص۴۵، مطبوعہ لال سٹیم پریس لاہور ۱۳۳۸ھ) اگر ان سب کی مختصر لفظوں میں صاف اور صریح تشریح سننی ہوتو ہ بھی سنئے۔ آپ کے دوسرے بھائی مرزائی سناتے ہیں کہ: ’’ایک نبی کیامیں تو کہتا ہوں ہزاروں نبی اور ہوںگے۔‘‘ (انوار خلافت ص۶۲، ہنڈبل ص۲)