احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
رہتی ہیں۔ اٹکل سے باطل معنی سمجھ کر دنیائے اسلام گمراہ ہو جاتے ہیں۔ خدا خدا کر کے وہ حقیقت جو کسی کے حاشیہ خیال میں بھی نہ آئی تھی۔ اب مرزاقادیانی پر منکشف ہوتی ہے۔ مگر ہنوز مرزاقادیانی پر بلا ایمان لائے کسی کے سمجھ میں نہیں آسکتی۔ یہ بحث بالکل فضول ہوگی کہ مولوی صاحب کی پیش کردہ احادیث کو حافظ صاحب نے مبنی براستعارہ کہہ کر مرزاقادیانی کی بیان کردہ لغو تاویل جو لکھی ہے وہ صحیح ہے یا غلط۔ کیونکہ ان کی اصل بنیاد احادیث کا مبنی برغیر حقیقت ہونا ہی جب غلط ہے تو مجازی غائب ہے۔ پھر استعارہ چہ معنی۔ ورنہ اولاً برعایت کتب فن بتایا جائے کہ مسیح کا لفظ انجیل میں عیسیٰ بن مریم نبی اﷲ اور مسیح ۱؎ عیسیٰ بن مریم رسول اﷲ وغیرہ الفاظ قرآن واحادیث میں جو وارد ہیں یہ حقیقت نہیں مجاز ہے تو مجاز کی کون سی قسم ہے۔ لغوی یا شرعی، عرفی خاص یا عرفی عام، نیز اقسام استعارہ میں سے کون سا استعارہ ہے۔ جب تک یہ نہ بتایا جائے اس وقت تک خواہ مخواہ یہ دعویٰ کرناکہ حقیقت پر مبنی نہیں یا مبنی براستعارہ ہے کہاں کا انصاف ہے۔ ثانیاً فرمایا جائے، شارع کو اظہار حقیقت ہی مقصود ہوتا اور حضورﷺ کو عروج، حیات، نزول ابن مریم وظہور مہدی اور خروج دجال وغیرہ کی صریح طور پر خبر دیتی ہے۔ منظور ہوتی تو اس کے علاوہ علم، لقب، کنیت، خطاب ودیگر حالات وصفات کے لئے اور کون سے الفاظ استعمال فرماتے جو حقیقی اور صریح ہوتے۔ جب تک ہر دو امر کا شافی جواب نہ دیا جائے اس وقت تک مولوی صاحب ہی کی بات کو کہ مرزاقادیانی نہ مسلمان ہیں نہ مجدد ہیں۔ نہ مہدی ہیں نہ مسیح ہیں۔ حق ماننا پڑے گا۔ اس بحث میں میری یہ آخری گفتگو تھی جو ختم ہوگئی۔ کاش حافظ صاحب اس کو بنظر غور وانصاف دیکھتے اور سمجھتے۔ اللہم اٰمین! نمبر:۷… ان (مرزاقادیانی) کے ان دعوؤں (مجددیت، مہدویت، مسیحیت) کی دلیل یہ ہے کہ ان کے مقابلہ میں کوئی اور مجددیت، مسیحیت اور مہدویت کا مدعی نہیں ہوا۔ ان کے دعویٰ کی تصدیق کے لئے آسمان پر سورج گرہن اور زمین پر طاعون والی پیشین گوئی کا صحیح ہونا کافی ہے۔ ۱؎ حافظ صاحب کو خود بھی تسلیم ہے کہ مسیح اوّل کا پورا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہے جو قرآن کے رو سے اسم ذات ہے۔