احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
متعلق تمام علمائے متقدمین ومفسرین اور مجددین بالاتفاق بھی لکھتے چلے آئے ہیں کہ یہ حدیثیں مسیح موعود کے زمانہ کے جو لوگ ہیں۔ ان کے متعلق ہیں۔ اگر مخالفین کہیں کہ ابھی مسیح موعود نہیں آیا۔ لہٰذا ہم ان حدیثوں کے مصداق نہیں ہوسکتے تو میرے نزدیک اس وقت پر بحث فضول ہے۔ صرف یہ دیکھنا کافی ہے کہ جو جو باتیں ان حدیثوں میں بیان کی گئی ہیں۔ وہ اس زمانہ کے عام لوگوں اور مولویوں میں موجود ہیں یا نہیں۔ اگر ہیں تو لازماً ماننا پڑے گا کہ مسیح موعود بھی آچکا اور وہ مرزاقادیانی ہی ہیں۔ ہاں اگر یہ اوصاف جو حدیثوں میں بیان کئے گئے ہیں وہ ان لوگوں میں موجود نہیں تو پھر بیشک ان لوگوں کا یہ کہنا درست ہوسکتا ہے کہ ابھی مسیح موعود نہیں آیا۔ مگر یہی بات جب مولوی صاحب نے کی کہ مسیح موعود کے آنے، نہ آنے سے قطع نظر کر کے حدیثیں نقل کیں اور یہ دیکھا کہ ان میں امام مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کے جو حالات وصفات بلااستعارہ صراحۃً منجانب رسول اﷲﷺ مذکور ہیں۔ وہ مدعی مہدویت ومسیحیت جناب مرزاغلام احمد قادیانی میں پائی جاتی ہیں یا نہیں۔ انہوں نے نہیں پایا۔ لہٰذا کہہ دیا کہ مرزاقادیانی نہ مہدی ہیں نہ مسیح ہیں۔ تو حافظ صاحب فوراً میان سے باہر ہوکر ص۹۹ میں فرمانے لگے کہ آپ نے جن فرضی اوصاف بیان کر کے مرزاقادیانی میں نہ پاکر ان کے مہدی ومسیح ہونے سے انکار کیا ہے۔ وہ اوصاف حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔ لیکن حقیقت پر مبنی نہ ہونے کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں لکھتے کہ جو باتیں احادیث صحیحہ کے ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتی ہیں اور جسے مولوی صاحب نے بیان کی ہیں۔ یا دیگر غیر مرزائی علماء اسلام لکھتے ہیں۔ وہ فرضی ہیں۔ ہرنی نامہ سے زیادہ نہیں، طلسم ہوشربا سے کم نہیں۔ بعید از عقل ہوں، ناممکن ہیں۔ مگر کیوں ہیں۔ ہنوز اس کا جواب ندارد۔ عجیب طریقہ ہے کہ جب الفاظ سے خود کام لینا ہوتا ہے تو پیروی سنت کی ہدایت کی جاتی ہے۔ حدیث کے لفظ کی رعایت ہوتی ہے۔ ظاہری معنی واقعی ہو جاتے ہیں۔ مگر جب الفاظ ساتھ نہیں دیتے اور اپنا مدعا ثابت کرنے کے لئے مخالفین مرزاقادیانی اس سے کام لیتے ہیں تو مرزاقادیانی اور مرزائیوں خصوصاً حافظ صاحب کو نہ اتباع سنت کی توفیق ہوتی ہے نہ حدیث کے لفظ کی رعایت کی جاتی ہے۔ ظاہری معنی فرضی، خلاف عقل،ناممکن ہوجاتے ہیں اور وہی الفاظ جنہیں ساری دنیا مبنی برحقیقت سمجھتی ہے نہ معلوم کیوں کر مبنی براستعارہ ہوکر اس سے مرزاقادیانی کے موافق کہاں سے بلا قرینہ باطنی معنی پیا ہو جاتے ہیں کہ نہ خدا کسی کو بتاتا ہے۔ نہ نبی کو خبر ہوتی ہے نہ علماء ربانی کو سوجھتی ہے۔ تیرہ صدی تک ان الفاظ والی آیات واحادیث مہمل اور بیکار پڑی