احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
درست اور قرآن وحدیث کے مطابق ہیں۔ البتہ انہوں نے جوان باتوں کی تشریح کی ہے۔ اگرچہ وہ زمانہ حاضرہ میں بعید از عقل معلوم ہوتی ہے۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ ان کی اصل حقیقت ہم پر بذریعہ مرزاقادیانی کھولی گئی ہے۔ یہ حقیقت اگر ان بزرگوں کے سامنے پیش کی جاتی تو وہ ضرور اس کو بعید از عقل سمجھتے۔ جس طرح آج کوئی کم سمجھ ان بزرگوں کے علم وعقل کا مضحکہ اڑاتا ہے۔ اسی طرح جوان بزرگوں کے سامنے ان باتوں کا اصل مطلب بیان کرتا تو وہ نہ معلوم اس کو کیا سمجھتے اور کیا کچھ سناتے۔ کیونکہ یہ تمام باتیں ایسی ہیں جن کے سامنے طلسم ہوشربا کی بھی کچھ حقیقت نہیں ہم جانتے ہیں کہ وہ اس سے زیادہ کچھ نہ کرسکتے تھے۔ یہ بیشک اپنے زمانہ کے بہت بڑے پایہ کے علّام تھے۔ مگر ملہم من اﷲ نہ تھے۔ اگر وہ ملہم من اﷲ بھی ہوتے تو خدا ان کو ان پیشین گوئیوں کی قبل از وقت اصل حقیقت نہ بتاتا۔ ان بیچارے مفسرین پر کیا منحصر ہے۔ پیشین گوئیوں کے متعلق تو نبیوں کو بھی صحیح علم نہیں دیا جاتا۔‘‘ (از صفحہ ۱۱۱ تا ۱۱۳ ملخصاً) آگے ایک جگہ حاشیہ میں اس سے بھی صاف فرماتے ہیں کہ: ’’میں بک نہیں رہا بلکہ ایک حقیقت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ جس طرح علماء متقدمین نے دیگر مسائل ختم نبوت اور حیات مسیح وغیرہ کے مفہوم قائم کرنے میں غلطی کھائی ہے۔ اسی طرح اہل بیت کے مفہوم کو بھی غلط طور پر سمجھ کر ایسا خطرناک عقیدہ قائم کر دیا ہے۔ جس سے تمام مسلمانوں کو ازحد نقصان پہنچا اور پہنچ رہا ہے۔‘‘ مطلب یہ کہ حافظ صاحب کے نزدیک سابق علماء ربانی نے غلط تشریح ہی نہیں کی بلکہ ایسا باطل مفہوم بتایا کہ جملہ مسلمانوں کو بیحد نقصان پہنچا اور ہنوز پہنچ رہا ہے۔ لیجئے اب مطلع صاف ہے کہ پیشین گوئیوں کی اصل حقیقت سے ہماری طرح مرزاقادیانی سے پہلے کے علماء اسلام حتیٰ کہ خود نبی حضورﷺ بھی بیخبر تھے۔ سوال یہ ہے کہ اصل حقیقت سے ہماری محرومی کی وجہ تو کفر (عدم ایمان بر مرزا) تھی۔ مگر ان علماء ربانی خصوصاً نبی حامل وحی کے بیخبری کی کیا وجہ ہے؟ اگر کہا جائے کہ پیشین گوئیوں کا محض استعاری ہونا ہے تو ہم نے کیا قصور کیا ہے جو ہمارے لئے اس کے سوا دوسری علت تجویز کی جاتی ہے۔ دوسرے جب آج بھی قرآن وحدیث کے وہی الفاظ ہیں تو وہ مرزاقادیانی کے لئے بھی استعاری ہیں۔ پھر ان پر اس کی اصل حقیقت کیونکر منکشف ہوگئی۔ رہی ان کی نبوت تو وہ مرزائیوں کے لئے حجت ہوگی۔ ہمارے لئے تو ان کی نبوت ہی نہ صرف ان کی حقیقت بلکہ ان کی بیان کردہ حقیقت کے بھی بطلان کی دلیل ہے۔ اور اگر کہا جائے کہ پیشین گوئیون کا قبل از وقت ہونا ہے تو حضورﷺ نے بلا علم حقیقت