احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
’’گو اجمالی طور پر قرآن اکمل واتم کتاب ہے۔ مگر ایک حصہ کثیرہ دین کا اور طریقہ عبادات وغیرہ کا مفصل اور مبسوط طور پر احادیث سے ہم نے لیا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۵۶، خزائن ج۳ ص۴۰۰) مگر دوسری طرف جوش دعاوی باطلہ میں یہ سب فراموش کر کے اس کے خلاف نہایت بیباکی سے فرماتے ہیں کہ: ’’کتاب الٰہی کی غلط تفسیروں نے مولویوں کو بہت خراب کیا ہے اور ان کے ولی اور دماغی ٹوی پر اثران سے پڑا ہے۔ اس زمانہ میں بلاشبہ کتاب الٰہی کے لئے ضرور ہے کہ اس کی ایک نئی اور صحیح تفسیروں کی جائے۔ کیونکہ حال میں جن تفسیروں کی تعلیم دی جاتی ہے۔ وہ نہ اخلاقی حالت کو درست کر سکتی اور نہ ایمانی حالت پر اثر ڈالتی ہیں۔ بلکہ فطری سعادت اور نیک روشنی کے مزاحم ہورہی ہیں۔‘‘ (ازالہ ص۷۲۶، خزائن ج۳ ص۴۹۲) ’’کیوں جائز نہیں ہے کہ راویوں نے عمداً یا سہواً بعض احادیث کی تبلیغ میں خطا کی ہو۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۳۰، خزائن ج۳ ص۳۸۵) ’’اکثر احادیث اگر صحیح بھی ہوں تو مفید ظن ہیں۔ والظن لا یعنی من الحق شیئاً۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۵۴، خزائن ج۳ ص۴۵۳) اگر پدر نتواند پسر تمام کند، مرزاقادیانی کے فرزند میاں محمود خلیفہ ثانی نے لکھا ہے کہ: ’’مسیح موعود (مرزاقادیانی) سے جو باتیں ہم نے سنی ہیں وہ حدیث کی روایت سے معتبر ہیں۔ کیونکہ حدیث ہم نے آنحضرتﷺ کے منہ سے نہیں سنیں۔‘‘ (الفضل ۳۰؍اپریل ۱۹۱۵ئ، ہینڈبل ص۳، ازرسالہ دین مرزا کفر خالص ص۴۷ حوالہ نمبر۲۳) ’’الہام کیاگیا کہ ان علماء نے میرے گھر کو بدل ڈالا اور چوہوں کی طرح میرے نبی کی حدیثوں کو کتر رہے ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۷۶، خزائن ج۳ ص۱۴۰) دیکھئے باپ اور بیٹے نے مل کر تفسیر اور حدیث کے ساتھ مفسرین، محدثین، علماء پر کیسا ہاتھ صاف کیا ہے۔ یہی حال ہے حافظ صاحب کا جو ایک جگہ تو لکھتے ہیں کہ دراصل اس تعریف ومدح کی جو قرآن وحدیث میں علمائے کرام کے متعلق ہے یا تو وہ عالم ربانی مستحق تھے۔ جو مسیح موعود (مرزاقادیانی) سے پہلے گذر چکے ہیں۔ یا اب وہ ہیں جو مسیح موعود (مرزاقادیانی) پر ایمان لائے ہیں۔ مگر انہیں علمائے کے متعلق دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ مفسرین رحمہم اﷲ نے جو کچھ آخری زمانہ کی پیشین گوئیوں کے متعلق فرمایا ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ اپنے اصل کے لحاظ سے وہ سب