احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
مبنی ہوتی ہے۔ سمجھنے کے لئے علم روحانی کی ضرورت ہے۔ مگر استعارہ تو استعارہ پھر اس خصوصیت کی کیا وجہ کہ اور استعارے تو سمجھ میں آئیں۔ لیکن قرآن وحدیث کے استعارے بلا مرزائی ہوئے سمجھ میں نہ آئیں؟ دنیا جانتی ہے کہ استعارہ از قسم مجاز ہے۔ نیز لفظ مجاز اور حقیقت ہر دو متقابل ہیں۔ اہل علم پر روشن ہے کہ حقیقت، حقیقت ہے اور مجاز، مجاز نیز بلا قرینہ صارفہ حقیقت سے مجاز کی طرف عدول ناجائز ہے اور معنی مجازی اسی قرینہ سے سمجھ میں آتا ہے۔ پھر استعارہ کے بھی اقسام ہیں اور سب میں یہ رعایت ملحوظ ہونی ہے جو ہر استعارہ کے لئے عام ہے۔ لیکن حافظ صاحب نے معانی وبیان کے اس علمی کارخانہ کو درہم برہم کر کے قرآن وحدیث کی استعاری باتوں بالخصوص پیشین گوئیوں کو جدا کیا اور اس کے سمجھنے کے لئے یہ نئی تھیوری قائم کی کہ ایمان بالمرزا پر موقوف ہے۔ پھر مولانا اشرف علی صاحب تھانوی مدظلہ العالی حافظ صاحب کی کتاب واپس نہ کرتے۔ مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری جواب نہ دیتے۔ مولوی عبدالحلیم صاحب کانپوری دوسرے کے حوالہ نہ فرماتے تو اور کیا کرتے۔ خدا کی شان یہ بات میرے ہی قسمت میں لکھی تھی کہ حافظ صاحب کو انکی اس جدت پر مبارک باد دوں۔ خیر حافظ صاب کی اس جدت طرازی سے کم ازکم یہ بات تو واضح ہوگئی کہ مرزاقادیانی کے دعاوی کو حقیقت سے کچھ تعلق نہیں۔ ان کی تثلیث، مہدویت، مسیحیت، نبوت وغیرہ کا سارا کارخانہ بس مجاز پر ہے۔ لیکن افسوس مرزاقادیانی یا حافظ صاحب نے یہ نہ ظاہر فرمایا کہ مجازی عمارت کس قسم کے استعارہ پر بنائی جارہی ہے۔ اچھا بنائیے لیکن یہ یاد رکھئے کہ ایسی چالیں پہلے بھی کچھ لوگ چل چکے ہیں۔ مگر نہ چل سکیں کیونکہ ناؤ کاغذ کی کبھی چلتی نہیں۔ جب یہ بات معلوم ہوچکی کہ قرآن وحدیث کا استعارہ مرزاقادیانی اور مرزائی کے سوا کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ جیسا کہ حافظ صاحب لکھتے ہیں۔ ’’سچی بات یہ ہے کہ ان باتوں کی اصل حقیقت جو ہم پر بذریعہ حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کھولی گئی ہے۔ تو مرزاقادیانی کے وقت سے قیامت تک کے غیر مرزائی مسلمان جو اصل حقیقت سے محروم ہیں۔ اس کی وجہ بھی ظاہر ہوگئی کہ وہ روحانی آنکھ، قلب سلیم، ایمان علم روحانیت سے ظاہر پرست مولوی صاحبان بالکل تہیدست اور بے نصیب ہیں اور یہ باتیں مرزاقادیانی پر بلاایمان لائے حاصل نہیں ہوتیں۔‘‘ نتیجہ یہ کہ جملہ غیر مرزائی مسلمان بے ایمان، کافر ہیں اور ان کے حقیقت سے محرومی کی وجہ کفر ہے۔ دیکھئے حافظ صاحب! کس صفائی سے آپ کی عبارت از مرزاقادیانی تاقیامت کے