احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
مارے اور اس کا علم وتجربہ کیا شے ہے کہ اس پر ناز کرے۔ کیا عمدہ اور صاف اور پاک اور خدائے تعالیٰ کی عظمت اور بزرگی کے موافق یہ عقیدہ ہے کہ جو کچھ اس سے ہونا ثابت ہے وہ قبول کیا جائے اور جو کچھ آئندہ ثابت ہو اس کے قبول کرنے کے لئے آمادہ رہیں اور بجز امور منافی صفات کمالیہ حضرت باری عزاسمہ سب کاموں پر اس کو قادر سمجھا جائے اور امکانی طور پر سب ممکنات قدرت پر ایمان لایاجائے۔ یہی طریق اہل حق ہے جس سے خدائے تعالیٰ کی عظمت وکبریائی قبول کی جاتی ہے اور ایمانی صورت بھی محفوظ رہتی ہے۔ جس پر ثواب پانے کا تمام مدار ہے۔ نہ یہ کہ چند محدود باتیں اس غیر محدود کے گلے کا ہار بنائے جائیں اور یہ خیال کیا جائے کہ گویا اس نے اپنے اذلی وابدی زمانہ میں ہمیشہ اسی قدر قدرتوں میں اپنی جمع طاقتوں کو محدود کر رکھا ہے یا اسی حد پر کسی قاسر سے مجبور ہورہا ہے۔ اگر خدائے تعالیٰ ایسا ہی محدود القدرت ہوتا تو اس کے بندوں کے لئے بڑے ماتم اور مصیبت کی جگہ تھی۔ وہ عظیم الشان قدرتوں والا اپنی ذات میں لایدرک والا انتہاء ہے۔ کون جانتا ہے کہ پہلے کیا کیا کام کیا اور آئندہ کیاکیا کرے گا۔ ایک حکم کا قول ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی بھی گمراہی نہیں کہ انسان اپنی عقل کے پیمانہ سے باری عزاسمہ کے ملک کوناپنا چاہے۔ یہ بیانات بہت صاف ہیں۔ جن کے سمجھنے میں کوئی دقت نہیں۔‘‘ (سرمہ چشم آریہ ص۵۵، خزائن ج۲ ص۱۰۳) حافظ صاحب! دیکھئے مرزاقادیانی نے آپ کی معقولیت کو خاک میں ملادیا اور خدا کی قدرت کو کیسا وسیع بیان فرمایا۔ اگر میری نہیں سنتے تو لللّٰہ اپنے نبی ہی کی مان لیجئے اور اقرار کیجئے کہ مولوی صاحب کی پیش کردہ احادیث صحیحہ کی باتیں خلاف عقل نہیں بلکہ خود اپنی عقل ہی خلاف عقل وایمان ہے۔ جواب میں گومذکورہ عبارت کافی ہے۔ تاہم مزید اطمینان کے لئے کچھ اور عرض کرتا ہوں۔ یاد رکھئے کہ حافظ صاحب کی معقولیت کی حقیقت آخری زمانہ کے پیش گوئی کا بس استعاری ہونا ہے۔ اب اس استعارہ کا اصلی معنی سمجھنے کا نسخہ سنئے۔ حافظ صاحب لکھتے ہیں کہ سمجھنے کے لئے: ۱… روحانی آنکھوں اور قلب سلیم، علم روحانی اور ایمان کی ضرورت ہے۔ ۲… جو صرف حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) پر ایمان لانے سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ جیسے عیسائیوں کے ہاں بلا عیسائی ہوئے تثلیث سمجھ میں نہیں آتی۔ ویسے ہی مرزائیوں کے ہاں بلا مرزائی ہوئے استعارہ سمجھ میں نہیں آتا۔ مگر یہ بات ہر استعارہ میں نہیں۔ صرف قرآن وحدیث کے استعارہ میں ہے۔ جیسا کہ حافظ صاحب کی اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن وحدیث کی باتیں بالخصوص پیشین گوئیوں کی حقیقت جو اکثر استعارات پر