احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
پکارتے ہیں اور مرزاقادیانی نے اسی کو ہرسہ نام سے الزاماً بھی گالی دی ہے اور تحقیقاً بھی جو نبی کی شان میں بدترین توہین ہے اور نبی کی توہین کرنے والا قطعاً کافر ہے۔ پس مولوی صاحب نے بہت صحیح لکھا ہے کہ مرزا قادیانی مسلمان ہی نہیں پھر ان کا مجدد، مہدی، مسیح ہونا چہ معنی دارد؟ رہی دوسری بات تو اس کے متعلق حافظ صاحب نے بے ترتیب رطب دیا۔ بس جو کچھ لکھا ہے۔ ان سب کا دارومدار انہیں کے الفاظ میں اس پر ہے کہ جس قدر پیشین گوئیاںآخری زمانہ کے متعلق ہیں۔ وہ سب استعارات پر مبنی ہیں اور آخری زمانہ کی پیشین گوئی سے آپ کی مراد آخری زمانہ کے وہ واقعات ہیں جو حضرت مسیح ومہدی، دجال، یاجوج ماجوج وغیرہ کے متعلق ہیں۔ ان پیشین گوئیوں یا واقعات کا استعار یا مبنی بر استعارہ ہونا مرزاقادیانی کا ذاتی اختراع ہے۔ وہی راگ ان کے امتی بھی گاتے ہیں۔ یہی حافظ صاحب نے بھی ص۶۷،۹۹ پر بھی فرمایا کہ حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔ بلکہ استعارات کا رنگ اپنے اندر رکھتی ہیں۔ لیکن استعاری ہونا یا مبنی پر حقیقت نہ ہونا۔ حافظ صاحب کا خیال ہے کہ یہ مرزاقادیانی کی ایجاد نہیں بلکہ خود حضورﷺ نے قبل از وقت ہی مسلمانوں کو متنبہ فرمادیا تھا کہ دیکھو یہ باتیں حقیقت پر مبنی نہیں ہیں اور لطف یہ کہ بنام حدیث لکھا ہے۔ مگر الفاظ حدیث نقل نہیں کئے۔ ورنہ قلعی کھل جاتی۔ مولوی صاحب نے بحوالہ حدیث امام مہدی، حضرت عیسیٰ علیہما السلام اور دجال وغیرہ کے متعلق آخری زمانہ کے انہیں پیشین گوئیوں یا واقعات کو لکھ کر ثابت کیا تھا کہ مرزاقادیانی اس کے مصداق نہیں ہیں۔ حافظ صاحب نے جس پر برہم ہوکر لکھا ہے کہ: ’’آپ نے جو حضرت مسیح مہدی کے فرضی اوصاف بیان فرماکر یہ نتیجہ نکالا ہے کہ چونکہ مرزاقادیانی میں یہ اوصاف نہ تھے۔ اس لئے وہ کیسے مسیح ومہدی ہوسکتے ہیں۔ سو جواباً گذارش ہے کہ ان جملہ اوصاف کو آپ لوگ اگر حقیقت پر مبنی سمجھتے ہیں تو یاد رکھو کہ ان اوصاف کی صاحب عقل لوگوں کے نزدیک ہرنی نامہ سے زیادہ وقعت نہیں ہے۔‘‘ (نورہدایت ص۹۹) ’’دوسری جگہ اور غصہ میں ہوکر فرماتے ہیں کہ اگر کوئی استعارہ نہ سمجھے تو پھر وہ ہمیں سمجھائے کہ یہ حدیث کی باتیں جو سراسر خلاف عقل ہیں۔ کیونکر پوری ہوسکتی ہیں۔ اگر کہو خدا کی قدرت سے تو یہ مارے درجہ کا جواب ہے۔ جس سے خدا کے قدرت کی سخت توہین ہے اور سوائے بیوقوف اور جاہل لوگوںکے کوئی صاحب عقل اس قسم کا لغو جواب نہیں دے سکتا۔ جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ایسے موقعہ پر قدرت کی آڑ لینے والوں کے پاس کوئی معقول جواب نہیں جو کسی