احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
دے گا جو انہوں نے قطع یا کمزور کردیا ہے اور قرآن وحدیث کے ذریعہ سے امت میں مذہبی روح پھونک دے گا۔ نہ کہ اس کو دیگر مذاہب سے زیادہ تر بالذات سروکار ہوگا یا کوئی نیا مذہب سکھائے گا۔‘‘ حافظ صاحب نے ان میں سے کسی بات کا جواب نہیں دیا۔ ہاں مولوی صاحب نے برتقدیر تسلیم یہ بھی لکھا تھا کہ پھر مرزائی کے پیش کردہ سابق مجددین کے دور تجدید میں تفرقہ مت کر۔ مسلمانوں میں وحدت فی المذہب ہونا چاہئے تھا مگر نہیں ہوا۔ خود مرزاقادیانی کے عہد تجدید میں بھی تفرقہ کا مٹنا کیا، کم بھی نہ ہوا۔ بلکہ اور زیادہ ہوگیا۔ حافظ صاحب اس کو بھی شربت کے گھونٹ کی طرح پی گئے۔ البتہ دیباچہ میں مرزاقادیانی کی مجددیت کے بجائے ان کی نبوت کا ایک فرضی کارنامہ لکھا ہے۔ حالانکہ ان کی نبوت ہی انہیں مجدد کیا معنی، ادنیٰ درجہ کامسلمان بھی نہیں رہنے دیتی۔ بلکہ اسلام سے خارج کر کے ادنیٰ ترین میں بھی نہیں، اعلیٰ ترین کافر کے صف میں جگہ دیتی ہے۔ ایسے شخص کو مسلمان کہہ کر بھی اپنے ایمان کو کھونا ہے نہ یہ کہ اسے امام مجدد، نبی، جامع النبیین کہا جائے۔ نمبر:۳… جس نے اس مجدد کو جسے امیر یا امام زمان بھی کہتے ہیں نہ پہچانا یا اس کی اطاعت نہ کی اس کی نجات نہیں ہوسکتی۔ مولوی صاحب نے جواب دیا تھا کہ: ۱… امیر وامام اور مجدد کا ایک ہونا غلط ہے۔ احادیث میں جہاں کہیں امیر وامام آیا ہے اس سے مجدد مراد نہیں اور نہ مجدد سے امیر وامام مراد ہے۔ بلکہ یہ دونوں جدا گانہ میربیوں کے نام ہیں۔ ۲… امیر وامام کی اطاعت واجب ہے۔ ان سے منحرف دنیا میں مستوجب قتل اور عقبیٰ میں مستحق عذاب ہے۔ مگر یہ قطعاً غلط ہے کہ مجدد کی اطاعت بھی فرض یا کم از کم واجب ہے۔ یہ امر دیگر ہے کہ مجدد کی حق بات کو حق ہونے کی جہت سے ماننا لازم ہے۔ جس میں مجدد کی کوئی خصوصیت نہیں وہی حق بات ادنیٰ عامی بھی کہئے تو بھی ماننا لازم ہے۔ بخلاف امیر یا امام کے کیونکہ حدیث میں ہے اطیعوا کل بروفاجر کہ ہر امام نیک وبد کی اطاعت کرو۔ یہاں امیر وامامت کی حیثیت اطاعت کو ضروری ٹھہراتی ہے اور مجدد میں مجددیت نہیں۔ بلکہ حقیقت کی حیثیت اطاعت کو واجب قرار دیتی ہے۔ جس میں مجدد اور غیر مجدد سب برابر ہیں۔