احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
پر ترس نہ آیا۔ مدعی روحانیت ہوکر کسی عالم دین کو (مدعی بے پردہ ہو اور مدعا پردہ میں ہو) کی طرح جاہل کہنا یہ کہاں کا روحانی خلق ہے؟ دنیاوی بادشاہ خواہ کافر ہو یا مسلمان، اس کی اطاعت کے فرض ہونے کا صاف یہ نتیجہ ہے کہ مسلمان بادشاہ کی طرح کافر بادشاہ کی بھی اطاعت فرض ہے۔ معلوم نہیں آپ کے پاس اس کی کیا دلیل ہے؟ بادشاہ وقت نصاریٰ ہے اور نصاریٰ بقول مرزاقادیانی دجال ۱؎ ہیں۔ تو کیا مسلمانوں پر دجال کی بھی اطاعت فرض ہے۔ ۳… اب تک تو یہ سنتے آئے تھے کہ سزا جرم کی حیثیت کے مطابق ہونی چاہئے۔ مگر قادیانی مذہب کا اس کے برعکس یہ نیا قانون آپ سے معلوم ہوا کہ سزا حاکم کی حیثیت کے مطابق ہونی چاہئے۔ ۴… پہلے دعویٰ تھا فرضیت معرفت امام بمعنی مجدد کا اور اب اس کو بدل دیا کہ امام بمعنی مجدد ونبی کی معرفت فرض ہے۔ چنانچہ اس پر آپ کا نتیجہ شاہد ہے۔ ۵… پہلے فرضیت معرفت مجدد کا دعویٰ مطلق تھا اور اب آپ نے اس کو بنام مرزا مقید کردیا۔ ۶… پہلے مطلق میں صرف امام ومجدد تھا اور اب مقید میں آپ نے یہ اضافہ کیا کہ مرزاقادیانی مسیح موعود ہیں، مہدی مسعود ہیں، نبی ہیں، رسول ہیں اور ہر پہلو لکھ کر آپ نے گویا یہ بھی کہہ دیا کہ وہ محدث ہیں، کرشن ہیں، سلمان ہیں، آدم ہیں، نوح ہیں، ابراہیم ہیں، یعقوب ہیں، موسیٰ ہیں، داؤد ہیں، شیث ہیں، یوسف ہیں، اسحق ہیں، یحییٰ ہیں، اسمعیل ہیں، مریم ہیں، ابن مریم ہیں، حارث ہیں، منصور ہیں، میکائیل ہیں، آریوں کے بادشاہ ہیں، حجر اسود ہیں، بیت اﷲ ہیں، ابن اﷲ ہیں۔ حتیٰ کہ ان کی تحریر سے شبہ ہوتا ہے کہ بڑے نہیں تو چھوٹے اﷲ ہیں۔ کیونکہ مرزاقادیانی نے اپنے متعلق خود یہ دعاویٰ کئے ہیں اور ان کی تصانیف میں مذکور ہیں۔ (دیکھو دعاوی مرزا مطبوعہ مطبع قاسمی دیوبند) ۷… آپ کی اس نتیجہ خیز تحریر کے تین حصے ہیں۔ اوّلاً مثال، ثانیاً نتیجہ کی ابتدائی عبارت (پس چونکہ) سے (ہر پہلو سے) تک ثالثاً آخری عبارت (ان کو شناخت کرنا) سے (سزا پائے گا) تک اور ظاہر ہے کہ آخری عبارت میں جدید اور مقید دعویٰ فرضیت معرفت مرزا ہے۔ اب فرمائیے اس کی دلیل کیا ہے؟ مثال اس کو کہہ نہیں سکتے۔ ورنہ مثال اور دلیل کو ایک ماننا پڑے گا ۱؎ باقبال قومیں دجال ہیں۔ (ازالہ ص۱۴۶، خزائن ج۳ ص۱۷۴) پادری دجال ہیں۔ ایضاً ص۲۷۹،۲۸۰