احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
اطاعت فرض ہوتی ہے۔ خواہ وہ بادشاہ کافر ہویا مسلمان اور اس کے جو نائب اور نائب کے بعد سلسلہ دار عہدے دار اہلکار حتیٰ کہ ادنیٰ چیز اسی تک کا بھی حکم ماننا ضروری ہوتا ہے۔ بادشاہ کا کوئی تعلق دار خواہ ادنیٰ ہو یا اعلیٰ، بادشاہ کے نام سے کوئی بات کہے اور لوگوں کو اس کے ماننے کا حکم دے تو جو شخص اس کے حکم کی خلاف ورزی کرے گا۔ وہ سزا کا مستوجب ہوگا اور یہ سزا حکم دینے والے کی حیثیت کے مطابق ہوگی۔ پس اسی طرح نبی ورسول عالم روحانی کے امام ہیں۔ پھر ان کے بعد ان کے خلفاء مجددین وبزرگان دین وعلماء کرام جن کا تعلق اس نبی سے ہوتا ہے۔ ان سب کی اطاعت کرنی اس نبی پر ایمان لانے والوں اور رکھنے والوں پر فرض ہوتی ہے۔ اگر ان روحانیت کے علمبرداروں میں سے کوئی نبی کی طرف سے سچی بات کہے تو اس کا انکار خدا کے یہاں قابل مواخذہ ہے اور یہ مواخذہ اسی حد تک ہوگا۔ جس حد تک حکم دینے والے کی حیثیت ہوگی۔‘‘ حافظ صاحب اپنے اس مثال یا چوٹی کی دلیل کے بعد اب یہ نتیجہ نکالتے ہیں۔ ’’پس چونکہ حضرت مرزاقادیان مسیح موعود مہدی مسعود ہونے کے علاوہ نبی بھی ہیں اور رسول بھی۔ امام بھی ہیں اور مجدد بھی۔ غرض ہر پہلو سے ان کو شناخت کرنا اور ان پر ایمان لانا فرض ہے۔ جو شخص ان کا انکار کرے گا۔ وہ ان کی حیثیت اور درجات کے مطابق سزا پائے گا۔‘‘ ناظرین! یہ ہے مولوی صاحب کے مقابلہ میں حافظ صاحب کا مختصر مگر نتیجہ خیز جواب اب اس پر میری مختصر مگر معنی خیز تنقید بھی ملاحظہ ہو۔ اوّلاً اور اصل بحث یہ تھی کہ مرزائی کی پیش کردہ حدیث سے فرضیت معرفت امام بمعنی مجدد ثابت ہے یا نہیں۔ مرزائی کا دعویٰ تھا کہ ہاں، اور مولوی صاحب نے فرمایا کہ نہیں۔ حافظ صاحب مرزا کی حمایت کو آئے۔ لیکن حدیث کا نام تک نہیں لیتے اور بجائے دلیل ایک مثال پیش کر کے نتیجہ نکال دیتے ہیں۔ بالفاظ دیگر جس کا ماحصل یہ ہے کہ: ’’چونکہ نائب بادشاہ ونائب رسول کی اطاعت فرض ہے۔ لہٰذا مرزاقادیانی کی معرفت اور ان پر ایمان لانا فرض ہے۔‘‘ حافظ صاحب! آپ ہی انصاف سے فرمائیے کجا ثبوت فرضیت معرفت امام بمعنی مجدد من الحدیث، کجا ثبوت فرضیت معرفت مرزا من المثال اور کجا فرضیت اطاعت نائب بادشاہ ونائب رسول، کجا فرضیت معرفت وایمان مرزا مدعی نبوت اور رسالت۔اس کو کہتے ہیں۔ سوال از آسمان جواب از ریسمان کے لئے آپ کا جواب۔ مختصر مگر نتیجہ خیز ہے۔ یا میری تنقید مختصر مگر معنی خیز ہے۔ ببین تفاوت راہ از کجاست تابکجا۔ یہ مختصر سمجھ میں نہ آئے تو لیجئے کچھ مفصل بھی سن لیجئے اور اپنے جواب کے لطائف ذیل سے عبرت حاصل کیجئے۔ ۱… مولوی صاحب کی علمی لیاقت پر تو آپ کو رحم آیا۔ لیکن اپنی روحانی قابلیت