احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
ڈانٹے۔ لگے مولوی صاحب کو گنوار بنانے۔ رہی آیت ’’اکذبتم‘‘ تو واضح رہے ایسے ہی آپ نے ایک آیت کا حوالہ ص۴۴ میں بھی دیا ہے کہ خدا نے حضورﷺ کے سر پر خاتم النبیین کا تاج رکھ کر اس بات کی گارنٹی دے دی ہے کہ جو نعمت ہم نے اپنے پیارے رسول کو دی ہے وہ عطاء غیر مجذوذ ہے۔ یعنی یہ ایسی نعمت ہے جس کا کبھی انقطاع نہیں کیا جائے گا۔ قیامت تک اگر ہزاروں لاکھوں نبی بھی آئیں تو وہ سب آپ کی نسل روحانی میں سے ہوںگے اور نبی کریمﷺ کے تاج وتخت کے وارث ہوتے چلے جائیںگے۔ حالانکہ سورۂ ہود رکوع۸ میں آیت کے اس جز میں قیامت کے دن جنت میں نیک لوگوں کوجو نعمت ملے گی اس نعمت کو اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں کہ اہل جنت سے غیر منقطع نہ ختم ہونے والی ہوگی۔ اس جملہ کو نہ نبوت سے کوئی تعلق ہے نہ ختم یا عدم ختم نبوت سے واسطہ۔ اس میں نہ حضورﷺ کا ذکر، نہ آپ کی نسل کا بیان۔ لیکن حافظ صاحب نے ناواقفوں کو دھوکا دینے کے لئے اس کوزبردستی اپنے باطل عقیدہ سے چسپاں کردیا۔ یہی حال ’’اکذبتم‘‘ کا بھی ہے جو آیت نہیں بلکہ پ سورہ نمل رکوع۲ کی آیت کا درمیانی جزو ہے۔ یہاں بھی اوپر سے ا ﷲتعالیٰ قیامت کا ذکر فرمارہے ہیں کہ جس دن ہم جمع کریںگے ہر امت میں سے اس گروہ کو جو جھٹلاتے تھے ہماری آیتوں کو پھر وہ مثل بہ مثل کھڑے کئے جائیںگے۔ ’’حتیٰ اذا جاء وقال اکذبتم بایٰتی ولم تحیطوا بہا علما اما اذا کنتم تعملون‘‘ {یہاں تک کہ جب وہ حاضر ہوںگے تو اﷲتعالیٰ فرمائیںگے۔کیا تم نے جھٹلایا میری آیتوں کو حالانکہ تم نے ا ن کے علم کا احاطہ نہ کیا تھا۔ یا تم کیا عمل کرتے تھے۔} باٰیٰتی میں آیات جمع ہے۔ جس کا صحیح ترجمہ آیتوں یا نشانیوں ہے۔ حافظ صاحب نے اس کا ترجمہ نشان بلفظ مفرد وغلط کیا ہے۔ غرض آیت میں قیامت کا ذکر ہے۔ اس کو فرضیت معرفت مجدد سے کچھ تعلق نہیں۔ پھر دوسطر بعد ص۹۰ پر یہ لکھ کر مولوی صاحب آپ کی علمی لیاقت کو دیکھ کر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلہ کو ایسے طریق پر آپ کے سامنے رکھا جائے۔ جس سے بآسانی آپ اس کی حقیقت اور ضرورت کو سمجھ سکیں اور یہ مسئلہ دینی ودنیاوی دونوں طریق سے سمجھایا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ سمجھنے والا سلیم الفطرت اور خداترس انسان ہو۔ اصل بات یوں سمجھاتے ہیں۔ ’’دیکھو دنیا کا امام بادشاہ وقت ہوتا ہے۔ جس کی