احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
ورنہ مولوی آن باشد کہ چپ نشود، ملخصاً‘‘ لہٰذا ہمیں بھی یہ کہنے کی اجازت ملنی چاہئے کہ مولوی صاحب نے اس نمبر ودیگر نمبروں کا جو جواب دیا ہے اور ان میں سے بیشتر باتوں کا حافظ صاحب نے جواب نہیں دیا ہے۔ ان جوابوں کو غالباً حافظ صاحب نے تسلیم کرلیا ہے۔ ورنہ مرزائی آن باشد کہ چپ نشود۔ اصول موضوعہ اور پہلی بات کے تو قریب سے بھی نہ گذرے۔ ہاں دوسری بات میں سے صرف آخری یعنی فرضیت معرفت مجدد کے متعلق ایک جگہ ص۸۹ میں جاکر نظر آتے ہیں وہ بھی اس طرح کہ لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں چنانچہ اس عنوان سے حضرت امام الزمان کے متعلق ایک مختصر مگر نتیجہ خیز جواب فرماتے ہیں۔ اب میں آپ کی اس بحث کا جو رسالہ ردقادیان میں امام الزمان اور مجدد وقت کے متعلق ہے اور اس فضول ۱؎ بحث کے لئے آپ نے پندرہ بیس صفحہ سیاہ کئے ہیں۔ مختصر جواب دے کر اپنے رسالہ نورہدایت کو ختم کرتا ہوں۔ پھر کچھ شوخی، تعلّی اور ظرافت آمیز حکایت کے بعد لکھتے ہیں کہ آپ نے امام الزمان کی شناخت کرنے سے قاصر رہ کر گنوار کی طرح کہہ دیا کہ امام الزمان کی شناخت ہمارے فرائض میں دخل نہیں اور نہ ہی امام ومجدد کا انکار کفر میں داخل ہے۔ ٹھیک فرمایا خدائے تعالیٰ نے ’’اکذبتم باٰیٰتی ولم تحیطوا بہا علما‘‘ جھٹلایا تم نے میرے نشان کو اس لئے تمہاری سمجھ میں نہ آیا۔ مرزاقادیانی نے (توضیح المرام ص۱۵، خزائن ج۳ ص۵۸) میں جب الفاظ قرآنی کو دہقانی کہہ دیا تو ان کے امتی کا مولوی صاحب کو گنوار کہہ دینا کون سی بڑی بات ہے۔ حافظ صاحب! بقول آپ کے مولوی صاحب نے تو گنوار پن کیا۔ مگر آپ نے مرزاقادیانی کے صداقت کا نشان یا اپنی کتاب کا معجزہ دکھانے کے لئے کون سا نور برسایا۔ آپ کے بھائی مرزائی نے فرضیت معرفت مجدد کے لئے حدیث پیش کی۔ مولوی صاحب نے بدلیل کہا وہ اس سے ثابت نہیں۔ آپ نے بھی حامی بن کر ثابت نہ کیا۔ پس آپ شناخت کرا نہ سکے۔ نہ کہ مولوی صاحب شناخت کر نہ سکے۔ آپ کا فرض تھا کہ مرزائی کی پیش کردہ حدیث سے ثابت کرتے کہ امام بمعنی مجدد کی معرفت فرض ہے۔ اس کا انکار کفر اور منکر قطعی کافر ابدی دوزخی ہے۔ لیکن یہ تو کر نہ سکے۔ الٹا چور کوتوال کو ۱؎ پھر کیوں فضول بحث میں مرزاقادیانی نے اپنی عمر برباد کی۔ مرزائی جماعت نے اپنا نامہ اعمال اور آپ نے ۱۸۴ صفحہ سیاہ کیا؟