احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
صاحب نے راہ حق میں آٹھ نمبروں میں خلاصہ کیا ہے۔ میں اسی کو نمبروار لکھ کر ہر نمبر کا انہوں نے جو رد کیا ہے اس کا جواب بغرض رد حافظ صاحب کی کتاب نورہدایت میں تلاش کرکے دیکھوںگا کہ حافظ صاحب کہاں کہاںمولوی صاحب کے بالمقابل نظر آتے ہیں اور کہاں کہاں بھاگتے دکھائی دیتے ہیں اور اسی کے ضمن میں ترتیب مضامین میں بے قاعدگیاں بھی خود بخود ظاہر ہو جائیںگی۔ انشاء اﷲ تعالیٰ! نمبر:۱… ہر مسلمان پر فرض ہے کہ امام زمان کو پہچانے ورنہ اس کا خاتمہ کفار جاہلیت کا سا ہوگا۔ پھر قیامت میں اس کی بریت کی کوئی صورت نہ ہوگی۔ فقط! مولوی صاحب نے اوّل بحوالہ شرح نخبہ ونور الانوار وحسامی وغیرہ تین اصول موضوعہ لکھ کر پھر مرزائی کی پیش کردہ تین حدیث نقل کر کے جواب دیا ہے کہ: ۱… یہ خبر آحاد ہے جو مفید ظن ہے اور اس کا منکر غیر کافر ہے۔ ۲… لفظ امام منقول شرعی ہے۔ ہرسہ حدیث میں اس کے معنی صاحب سلطنت کے ہیں۔ حدیث اوّل ودوم میں بادشاہ کی اطاعت کرنے اور سوم میں اس سے بغاوت نہ کرنے کی ترغیب وترہیب ہے نہ کہ امام سے مراد مجدد اور اس کی معرفت کا حکم بطور فرض۔ ۳… بریت کی کوئی صورت کافر کی نہ ہوگی نہ کہ امام بمعنی مجدد کے منکر کی۔ ۴… فرقہ مرزائیہ بدووجہ جہنمی ہے۔ اوّل اس لئے کہ اس نے حضورﷺ پر یہ افتراء کیا کہ مجدد کی معرفت فرض، اس کا منکر نبی کے منکر کی طرح کافر اور ابدی جہنمی ہے۔ دوم اس لئے کہ اس نے مرزاغلام احمد قادیانی کو ایسا ہی مجدد مانا۔ انتہی مختصراً! حافظ صاحب نے کتاب بھر میں نہ صرف اس نمبر کا بلکہ کسی نمبر کا ترتیب کا کیا ذکر ہے۔ بلاترتیب بھی کہیں نام تک نہیں لیا۔ شاید اس لئے کہ پھر ہر نمبر نیز اس کی ہر بات کا جواب لکھنا پڑتا۔ جس سے وہ عاجز تھے۔ اسی کو چھپانے کے لئے ادھر ادھر کی باتیں لکھ کر نام کرنا چاہا کہ راہ حق کا جواب ہوگیا۔ لیکن خیر مجھ سے وہ چھپ کر جائیںگے ایسے کہاں کے ہیں۔ میں نے نور ہدایت کا ہر صفحہ دیکھا مولوی صاحب کے جواب نمبر ایک کی ہر بات کے سامنے حافظ صاحب کو غائب ہی پایا اور حافظ صاحب کے نزدیک جواب نہ دینا تسلیم کی علامت ہے۔ چنانچہ اسی بنا پر مولوی صاحب کو ص۱۶۵ میں لکھا ہے کہ: ’’قول الحق کے چالیس عنوان ہیں۔ جس میں تقریباً مولوی صاحبان کے ہر اعتراض کا جواب ہے۔ آپ نے بمشکل پانچ کا ناواجب جواب دیا ہے۔ باقی کا نہیں۔ جن باتوں کا جواب نہیں دیا غالباً آپ نے انہیں تسلیم کرلیا ہے۔