احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
مریم کے ذکر کو ضروری سمجھتے ہوںگے کہ وہ زندہ آسمان پر ہیں۔ جو بروقت واپسی اپنے ساتھ بہت بڑا خزانہ لادیںگے اور مولوی صاحبان کی جو خالی جھولیاں پڑی ہیں ان کو مال وزر سے خوب بھریںگے۔ (نور ہدایت ص۵۱) حالانکہ ہم مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہرگز نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اپنے ساتھ بہت بڑا خزانہ لا کر ہمیں دیںگے۔ مگر حافظ صاحب خود یہ عقیدہ گھڑ کر زبردستی ہماری طرف منسوب کرتے ہیں۔ ۴۱… ظاہر ہے کہ مرزاقادیانی نے شعر مذکور کے مصرع ثانی میں جو غلام احمد کا استعمال کیا ہے۔ وہ خود ان کا اسم ذات اور علم ہے۔ پس مرزاقادیانی کا مطلب صاف ہے کہ ابن مریم مجھ سے کمتر ہے۔ میں اس سے بہترہوں۔ لہٰذا اس کمتر کے ذکر چھوڑو۔مجھ بہتر کا ذکر کرو۔ حافظ صاحب غلطی سے فرماتے ہیںکہ (مرزاقادیانی) نے (حضورﷺ) کو احمد فرمایا جو درحقیقت سب سے بڑے احمد ہیں اور اپنے کو انکا غلام فرمایا۔ اس صورت میں غلام مضاف اور احمد مضاف الیہ ہوگا اور مرزاقادیانی کی کوئی خصوصیت نہ رہے گی۔ حضورﷺ کے ہر غلام کو ابن مریم سے بہتر کہنا پڑے گا۔ جس کے قائل خود حافظ صاحب بھی نہ ہوںگے اور حافظ صاحب کا یہ کہنا بھی بیکار ہو جائے گا کہ مصرع ثانی میں مرزاقادیانی نے اپنے کو حضورﷺ کا غلام فرمایا۔ یہ اپنے کو کہنا جب ہی باکار ہوگا کہ حافظ صاحب اپنی غلطی کو واپس لے کر مصرع میں غلام احمد کو مرزاقادیانی کا علم تسلیم کر لیں اور اگر یہی کہاجائے کہ مضاف سے مراد مرزاقادیانی ہیں۔ جیسا کہ حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ اپنے کوان کا غلام فرمایا۔تو شعر کا مفہوم جو علم کی صورت میں تھا وہی جز مرکب کے تعین کی صورت میں ہوگا اور اہانت مسیح علیہ السلام پھر بھی رہی یعنی میرا ذکر بہتر ہے ان کے ذکر سے۔ نعوذ باﷲ! ۴۲… حافظ صاحب کی یہ غلطی بھی قابل داد ہے۔ فرماتے ہیں۔ ’’ہمارا بجز اس بات کے کہ ہم ابن مریم کی نبوت پر ایمان رکھیں اور ان کو تمام نبیوںکی طرح پاک اور مقدس سمجھیں اور کوئی تعلق نہیں تو پھر ان کے ذکر سے کیا فائدہ۔‘‘ (نورہدایت ص۵۲) اگر ابن مریم کا ذکر بے فائدہ ہے تو یہ سوال اوّل اﷲ ورسول سے کرنا چاہئے کہ قرآن وحدیث میں ابن مریم بلکہ ان سے پہلے کے انبیاء علیہ السلام کے بکثرت ذکر کا کیا فائدہ؟ حیرت ہے کہ جس کو مثیل مسیح بننے کا اتنا شوق۔ اس کو اصل مسیح سے اتنی تفرت کہ ذکر بھی ناپسند ہے۔ استغفراﷲ!