احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
اوّل کے مخالفین ایسا کرتے تو البتہ قابل توجہ ہوتا مگر انہوں نے تو مخالفت میں مال دیا، عزت آبرودی، جان دی، لیکن یہ نہ کرسکے کہ قرآن میں غلطی نکالتے۔ ورنہ حافظ صاحب کو چاہئے کہ ان فصحائے عرب میں سے کسی ایسے مستند صاحب زبان کی نکالی ہوئی قرآن کی غلطی کا بسند صحیح پتہ دیں جیسے کہ مرزا قادیانی کے ہمعصر اہل علم نے ان کے علم واعجاز کی ایسی واقعی قلعی کھولی ہے کہ مرزائیوں سے جواب ناممکن ہے۔ ۳۷… حافظ صاحب نے (بعض نے کچھ غلطیاں نکالیں) لکھ کر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ مرزا قادیانی کے علمی، اعجازی، انعامی رسالہ میں کم لوگوں نے تھوڑی غلطیاں نکالی ہیں۔ کیونکہ غلطی نکالنے والوں میں سے چھ اہل علم کا ذکر تو اوپر میں بھی کرچکا ہوں اور غلطیوں کی کثرت کا یہ حال ہے کہ اگر صرف مذکورالصدر پتہ ہی پرقناعت کرکے شمار کیا جائے تو انشاء اﷲ تعالیٰ ایک ہزار سے کم غلطیوں کی تعداد نہ ہوگی۔ ۳۸… مولوی صاحب نے حافظ صاحب کو خط میں بحوالہ رسالہ قول الحق ان کے خلیفہ ثانی مرزا بشیرالدین محمود ولد مرزا غلام احمدقادیانی کا دوسرا جھوٹ لکھا تھا۔ چنانچہ حافظ صاحب ص۸۴ میں مولوی صاحب کو لکھتے ہیں کہ (آپ نے خلیفۃ المسیح پر ایک اور دوسرے جھوٹ کا الزام لگایا ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ ہر نبی کو اس کے مخالفوں نے یہی کہا کہ ان کی کوئی بات بھی سچی نہیں ہوئی۔) قول الحق جو مرزا بشیرالدین کا لیکچر ہے اس میں ص۵پر ان کے اصل الفاظ یہ ہیں (ہم کہتے ہیں کہ قرآن میں یہی لکھا ہے کہ سب انبیاء کو ان کے مخالفین بھی کہتے رہے ہیں بلکہ یہ کہتے رہے ہیں کہ ان کی ساری باتیں جھوٹی نکلیں نقل عبارت خط سے پہلے حافظ صاحب لکھ چکے ہیں۔ جھوٹے کو جھوٹا کہنا کوئی جرم نہیں۔ مگر صادقوں کو کاذبوں کا خطاب دینا پھر ان کے کذب کا ایمانداری سے ثبوت نہ دینا ظلم عظیم ہے اور اب اعتراض کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں جناب مولوی صاحب آپ مجھے بتائیں۔ اس میں آپ کو کون سا جھوٹ نظر آیا۔ کیا آپ کے نزدیک نبیوں کے مخالف یہ کہا کرتے تھے کہ تمہاری فلاں بات سچی اور فلاں جھوٹی ہوئی۔ پس اپنے دعویٰ کا ثبوت قرآن وحدیث سے پیش کریں۔ ورنہ خدا کی لعنت سے ڈریں جو ہمیشہ جھوٹوں پر پڑا کرتی ہے۔ ناظرین! خدارا انصاف کریں۔ دعویٰ خلیفۃ المسیح ثانی کا ہے کہ: ’’قرآن میں یہی لکھا ہے……الخ۔‘‘ حافظ صاحب اس کے حامی ہیں اور مولوی صاحب منکر۔ پس حسب اصول مناظرہ بار ثبوت حافظ صاحب پر ہے نہ کہ مولوی صاحب پر۔ لیکن حافظ صاحب بجائے ثبوت دینے کے خود ایک دعویٰ بناکر مولوی صاحب کو اس کا مدعی قرار دے کر ان سے اس کا مطالبہ کرتے