احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
کیا آپ کو علامہ مرحوم کے اس اعلان کی خبر نہیں جو ۲؍مئی ۱۹۰۲ء کے اخبار مذکورہ میں شائع ہوا تھا کہ میں ۱۳؍فروری ۱۹۰۲ کو مسجد حکیم حسام الدین سیالکوٹ میں مرزاقادیانی سے ملا جہاں وہ معہ حواریین رونق افروز تھے۔ ان کی خدمت میں اپنا غیر منقوط عربی قصیدہ (اس قصیدہ کے کچھ اشعار رسالہ رسائل اعجازیہ مطبوعہ مطبع رحمانیہ مونگیر ص۳۱ میں بھی منقول ہیں) پیش کیا اور کہا کہ اگر آپ کو الہام ہوتا ہے تو مجھے آپ کی تصدیق الہام کے لئے یہی کافی ہے کہ اس قصیدہ کا مطلب حاضرین مجلس کو واضح سنادیں۔مرزاقادیانی دیر تک چپکے دیکھتے رہے۔ مگر انکو اس کی عبارت بھی نہ آئی جو خوشخط عربی میں تھی۔ پھر انہوں نے اپنے ایک فاضل حواری کو دیا جو دیکھ کر فرمانے لگے کہ اس کا ہم کو پتہ نہیں ملتا۔ آپ ترجمہ کر کے دیں۔ آخر میںمیں مرزاقادیانی کو اشتہار دیتا ہوں کہ اگر وہ سچے ہیں تو آئیں صدر جہلم میں کسی مقام پر مجھ سے مباحثہ کریں۔میں حاضر ہوں۔ تحریری کریں یا تقریر میں ہوتو نثر میں کریں یانظم میں۔ عربی ہو یا فارسی اردو۔ آئیے سنئے اور سنائیے۔ لیکن مرزاقادیانی نے ایک چپ سے ہزار بلا کو ٹال دیا۔ کیا آپ کو اس کی اطلاع نہیں کہ ۲۴؍نومبر ۱۹۱۲ء کو مولوی محمد عصمت اﷲ صاحب سوپول، ضلع بھاگل پور نے مرزاقادیانی کے دست راست اور خلیفہ اوّل حکیم نورالدین قادیان کو خط لکھا کہ تفسیر اعجاز المسیح وقصیدہ اعجازیہ کے جواب دینے کی مدت ختم ہوگئی یا ابھی باقی ہے۔ اگر باقی ہے تو جواب دینے والے کو کن کن شرائط کی رعایت کرنی ہوگی۔ ۴؍دسمبر ۱۹۱۲ء کو حکیم صاحب کی طرف سے میر محمد صادق صاحب نے جواب دیاکہ انعامی رسالہ اعجاز احمدی کے بالمقابل لکھنے کی میعاد ۱۰؍دسمبر ۱۹۰۲ء تک اور اعجاز المسیح کے بالمقابل تفسیر سورہ فاتحہ لکھنے کی میعاد ۲۵؍فروری ۱۹۰۱ء تک ختم ہوچکی۔ اچھا علمی اور انعامی اعجاز تھا کہ بجائے مستمر ہونے کے تاریخ مذکور تک رخصت ہوگیا۔ اب اس سے کوئی کتنا ہی بہتر قصیدہ اور عمدہ تفسیر لکھ دے مگر جواب نہ ہوگا۔ چہ خوش! کیا حافظ صاحب نے مرزاقادیانی کے بیس دن اور ستر دن کے علمی اعجاز کی ان غلطیوں کو نہیں دیکھا جو علماء نے نکالی ہیں۔ مثلاً: ۱… بقول مولانا شبلی نعمانی مرحوم مصر کے مشہور رسالہ (غالباً المنار) نے اس کی غلطیاں نہایت کثرت سے دکھائی ہیں۔ ۲… پیر مہر علی شاہ صاحب نے اعتراضات کئے۔ ۳… مولوی ثناء اﷲ صاحب نے رسالہ الہامات مرزا میں۔