احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
ہے۔ حضورﷺ تعلیم یافتہ ہوتے اور آپ پر قرآن نازل ہوتا تو گو منکرین کو اس اہتمام کی گنجائش ہوتی کہ پڑھے لکھے تھے۔ خود بنالیا ہوگا۔ تاہم قرآن جیسا معجزہ ہے ویسا ہی معجزہ ہوتا۔ لیکن امی ہونے کی صورت میں تو اس وہم کی بھی گنجائش نہ رہی اور اعجاز قرآن بدرجۂ اولیٰ قابل تسلیم قرار پایا۔ اسی لئے اﷲتعالیٰ نے اس امرکو قرآن میں بطور دلیل پیش کیا ہے۔ ’’ماکنت تتلوا من قبلہ من کتب ولا تخطہ بیمینک اذالارتاب المبطلون‘‘ تم نہیں پڑھتے تھے (اے نبی) اس سے پہلے کوئی کتاب اور نہ لکھتے تھے اس کو اپنے دست راست سے۔ ورنہ اہل باطل شک کرتے۔ کہنے کو تو منکرین نے کہا۔ ’’لو نشاء لقلنا مثل ہذا‘‘ کہ اگر ہم چاہیں تو قرآن کا مثل بناسکتے ہیں۔ لیکن ’’لیس ہذا قول البشر‘‘ کے سوا کچھ نہ کہہ سکے۔ آخر اعجاز قرآن کے مقابلہ میں عاجز اور حیران ہوکر حضورﷺ کی ذات بابرکات پر ندامت مٹانے کو لگے بہتان اور افتراء پردازی کرنے۔ چنانچہ خدا نے فرمایا ہے کہ: ’’کذلک نصرف الایات ولیقولوا درست‘‘ {اس طرح ہم پھیر پھیر کر آیتیں بیان کرتے ہیں۔ (تاکافر متحیر ہوں) اور کہیں کہ پڑھا ہے تونے۔} غرض زمانہ نزول قرآن کے عرب منکرین نے بطور تجاہل عارفانہ اور بعد کے منکرین نے جیسے عیسائی آریہ وغیرہ بطور یقین حضورﷺ کو غیر امی اور قرآن کو ان کی تصنیف خیال کیا ہے۔ نہ کہ آپ کو امی کا لقب دیا ہے۔ ۳۰… حافظ صاحب نے مرزاقادیانی کو امی بناکر ان کا یہ معجزہ لکھا ہے کہ: ’’اس علمی زمانہ میں مدعیان علمیت پر اتمام حجت کے لئے خدا نے مرزاقادیانی کو کئی ایک زبردست علمی معجزات بھی دئیے۔ چنانچہ انہوں نے باوجود امی ہونے کے عربی زبان میں خطبہ الہامیہ دیا۔ کثرت سے نظم ونثر میں کتابیں لکھیں۔ بعض کتابوں پر جواب دینے کی صورت میں انعام بھی مقررکئے اور دنیا بھر کے عالموں کو چیلنج دیا کہ عالم ہو تو جواب لکھو۔ سب کا نہیں تو چھوٹی ہی کتاب کا سہی۔ تنہا نہیں تو سب مل کر لکھو۔ جواب درست ہونے پر دس ہزار روپیہ انعام لو اور قرآن کی طرح تحدی بھی کی۔ ’’فاء توا بمثلہ ان کنتم صادقین فان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النار التی‘‘ مگر کوئی مرد میدان بن کر مقابل نہ ہوا۔ سب ایسے دم بخود ہوئے گویا دنیا میں ہیں ہی نہیں۔ ہاں بعض نے اپنی خفت مٹانے کے لئے قرآن کی غلطیاں نکالنے والے مخالفین کی طرح کچھ غلطیاں نکالیں۔ جن کا منہ توڑا جواب دیا گیا۔‘‘ (نور ہدایت ص۵۷تا۵۹)