احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
ایسا امن تو دوسروں کو بلا مسیح موعود کے حاصل ہے۔ ۲۶… قرآن شاہد ہے کہ اہل عرب امی تھے اور حضورﷺ بھی امی تھے۔ دوسروں کا امی ہونا باعتبار علوم وفنون اور معارف ربانیہ کے اضافی تھا۔ لیکن حضورﷺ کا امی ہونا حقیقی تھا کہ عرب میں قدر قلیل جن چیزوں کی تعلیم وتعلم کا معمولی رواج تھا آپ اس سے بھی پاک تھے۔ اب حافظ صاحب کی سنئے۔ (نور ہدایت ص۵۷) میں فرماتے ہیں کہ: ’’حضورﷺ کی طرح مرزاقادیانی بھی امّی تھے۔‘‘ حالانکہ یہ بالاکل غلط ہے۔ مرزاقادیانی کے والد مرزاغلام مرتضیٰ زمیندار ار طبیب تھے۔ مرزاقادیانی نے اردو، فارسی، عربی کی تعلیم پائی تھی۔ ان کے استاد مولوی گل شاہ شیعہ تھے۔ مرزاقادیانی نے مختاری کا بھی امتحان دیامگر بدقسمتی سے فیل ہوگئے۔ (تاریخ مرزا ص۴) ساری عمر مطالعہ کتب اور تصنیف وتالیف کا مشغلہ رہا۔ مرزاقادیانی دیگر دعوؤں کی طرح اگر دعویٰ امیت بھی کرتے تو ان کا کوئی کیا کرلیتا۔ لیکن جہاں تک یاد پڑتا ہے انہوں نے شاید نہ اپنے امی ہونے کا دعویٰ کیا نہ اس کا ان پر الہام ہوا۔ بلکہ مرزاقادیانی نے خود بھی تسلیم کیا ہے (ازالتہ اوہام ص۸۱۷، خزائن ج۳ ص۵۴۲) کہ وہ فضل احمد وغیرہ کے شاگرد ہیں۔ پھر حافظ صاحب نے مرزاقادیانی کو امی نہ معلوم کیوں کہا۔ اگر اس لئے کہا کہ بہ خیال حافظ صاحب، مرزاقادیانی حضورﷺ کے بروز کامل تھے۔ (ص۵۷) متبع کامل تھے اور اسی لئے مرزاقادیانی محمد تھے۔ (۷۸) نبی تھے۔ (۴۱) امی تھے۔ (ص۵۷،۷۳،۷۸) تو اس قاعدہ کے مطابق حافظ صاحب کو اولاً ہر متبع کامل وفنافی الرسول امتی کو محمد نبی امی کہنا چاہئے۔ ثانیاً اﷲتعالیٰ کے ہر مطیع کامل، فنافی اﷲ بندہ کو اﷲ اور صفات الوہیت سے موصوف ماننا چاہئے۔ ورنہ ان کو اپنی غلطی تسلیم کرکے دعویٰ امیت مرزا سے دست بردار ہوکر مرزائیت سے انہیں توبہ کرنا لازم ہے۔ ۲۷… حافظ صاحب نے عبارت مذکورہ میں مرزاقادیانی کے امی ہونے کی یہ وجہ لکھی ہے کہ وہ حضورﷺ کے بروز کامل تھے۔ مگر (نور ہدایت ص۷۳) میں لکھتے ہیں کہ: ’’حضرت رسول کریمﷺ کی طرح انہوں (مرزاقادیانی) نے بھی امی کا لقب مصدقین اور مکذبین دونوں سے پایا۔‘‘ غور فرمائیے کجا امیت کی وجہ بروزیت اور کجا مصدقین ومکذبین کا عطیہ۔ ۲۸… دیکھئے، مذکورہ عبارت میں صاف لکھا ہے کہ: ’’حضورﷺ کو امی کا لقب مصدقین ومکذبین نے دیا۔‘‘ جو قطعاً غلط ہے۔ صحیح یہ ہے کہ خود خدا نے دیا جس پر قرآن شاہد ہے۔ ۲۹… یہ کہنا بھی کہ حضورﷺ کو امی کا لقب مکذبین نے دیا۔ کتنی بڑی جسارت