احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
۲۲… اور پھر بلا فصل فرماتے ہیں کہ: ’’حضور نے فرمایا اگر کوئی مدعی نبوت اپنا دعویٰ اس رنگ میں پیش کرے کہ مجھ کو محمد کی نبوت سے کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی محمدؐ کی شریعت پر میرے دین کا انحصار ہے۔ میں نے جو کچھ پایا بلاواسطہ براہ راست خدا سے پایا تو سمجھ لینا کہ اس قسم کا مدعی کذاب اور مفتری ہے۔‘‘ (نور ہدایت ص۴۱) حالانکہ حضورﷺ نے ایسا کہیں نہیں فرمایا کہ میرا کامل متبع تو نبی اور بالکل غیر متبع کذاب ومفتری ہوگا۔ ہاں یہ البتہ فرمایا ہے کہ جو میرا امتی بن کر اپنے کو نبی کہے وہ کذاب ودجال ہے۔ جس کا یہ لازمی نتیجہ ظاہر ہے کہ غیر امتی مدعی نبوت بدرجہ اولیٰ دجال وکذاب ہوگا۔ اب مرزاقادیانی متبع ہوں یا غیر متبع۔ ہر صورت میں نبی بن کر شرعاً دوسروں سے اپنے کو خود کذاب ومفتری کہلواتے ہیں۔ حافظ صاحب نے مرزاقادیانی کو اس زد سے بچانے کے لئے معلوم نہیں کہاں سے لکھ دیا کہ صرف بالکل غیر متبع مدعی نبوت کذاب ومفتری ہے۔ ۲۳… نمبر۲۱،۲۲ کی منقولہ عبارت سے حافظ صاحب کا یہ دعویٰ صاف ظاہر ہے کہ مرزاقادیانی حضورﷺ کے کامل متبع نبی ہیں۔ حالانکہ مرزاقادیانی نمبر۲۲ والی عبارت کے مصداق ہیں۔ جسے لکھتے وقت حافظ صاحب شاید اپنے مرزاقادیانی کے وہ الہامات بھول گئے جن سے ویسا ہی صاحب شریعت ہونے کا دعویٰ لازم آتا ہے۔ جیسا کہ کذاب ومفتری ہونے والا حافظ صاحب نے لکھا ہے۔ ’’کیونکہ شریعت نام ہے تعلیم محمدی کا جو قرآن اور حدیث میں بتمامہ موجود ہے۔ مرزاقادیانی قران کے متعلق اس کی تفسیر کے معیار صحت پر بحث کرتے ہوئے ساتواں معیار لکھتے ۱؎ ہیں کہ دولایت اور مکاشفات محدثین ہیں اور یہ معیار گویا سب معیاروں پر حاوی ہے۔‘‘ (برکات الدعا ص۱۳تا ۱۵) اور حدیث کی بابت فرماتے ہیں۔ ’’جو شخص حکم ہوکر آیا ہے اس کا اختیار ہے کہ حدیثوں کے ذخیرہ میں سے جس انبار کو چاہے خدا سے علم پاکر قبول کرے اور جس ڈھیر کو چاہے خدا سے علم پاکر رد کرے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۱۰، خزائن ج۱۷ ص۵۰) ’’حکم اس کو کہتے ہیں کہ اختلاف رفع کرنے کے لئے اس کا حکم قبول کیا جائے اور اس کا فیصلہ گووہ ہزار حدیث کو بھی موضوع قرار دے ناطق سمجھا جائے۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۲۹، خزائن ج۱۹ ص۱۳۹) ۱؎ اور( توضیح المرام ص۳۷،۳۸) میں یہ بھی فرماتے ہیں کہ صحیح کشف، الہام وخواب اولیاء انبیاء کے ساتھ مخصوص نہیں۔ بعض دفعہ فساق، فجار بدکار کو بھی صحیح الہام سچا خواب ہوتا ہے۔