احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
بلکہ یہاں تک فرمائیں کہ اب اگر خدانخواستہ حضرت مرزاقادیانی کی تمام پیشین گوئیاں بھی غلط یا جھوٹی ہوں تو بفضل خدا ہمیں کسی کی پرواہ نہیں۔ (نور ہدایت ص۱۷۶) مگر اس کو کیا کیجئے گا کہ آپ کی بدقسمتی سے مرزاقادیانی نے اپنی صداقت کے لئے اپنی پیشین گوئیوں کو معیار قرار دیا ہے۔ جس میں سے ایک کا بھی جھوٹا ہونا کافی ہے نہ کہ بقول مرزائی فی صدی دس بلکہ ساٹھ جھوٹی ہوئیں۔ لہٰذا خود مرزاقادیانی اور مرزائیوں نے اپنے جھوٹا ماننے اور کہنے پر دنیا کو مجبور کردیا ہے۔ اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔ پس آپ ناحق خفا ہوکر شکوہ، شکایت کرتے ہیں۔ ثانیاً… آپ نے لکھنے کو تو یہ لکھ دیا کہ ہمارے نزدیک غیر مرزائی مسلمانوں کی وہی حیثیت (صاف کیوں نہیں کہتے کہ آریوں کی طرح ہم مسلمان بھی واجب القتل ہیں) ہے جو دیانند، شردھانند، لیکھرام، راجپال کی ہے اور یہ خیال نہ فرمایا کہ آریہ تو مطلقاً نبوت ورسالت ہی کے منکر ہیں۔ نیز حضرت آدم علیہ السلام سے حضورﷺ تک جتنے انبیاء علیہم السلام گذرے ہیں۔ سب کی توہین وتکذیب کرتے ہیں۔ لیکن ہم مسلمان نبوت ورسالت کے قائل ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضورﷺ تک جملہ انبیاء علیہم السلام پر ایمان رکھتے ہیں۔ حضورﷺ کو خاتم النبیین مانتے ہیں۔ دین اسلام کو برحق، کامل، ناسخ الادیان اور قیامت تک کے لئے کافی سمجھتے ہیں اور اسی پر عمل کرتے ہیں۔ ہم بیشک مرزاقادیانی کو کاذب سمجھتے ہیں۔ مگر دین اسلام کے ماتحت جسے بظاہر آپ بھی حق کہتے ہیں مگر آریہ نہ صرف مرزاقادیانی کی بلکہ جملہ انبیاء کی اپنے اس دین کے ماتحت تکذیب کرتے ہیں۔ جسے ہم آپ دونوں بالاتفاق باطل مانتے ہیں۔ پس آپ کا آریوں اور مسلمانوں کو یوں متحد الحیثیت قرار دینا ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے؟ ثالثاً… آپ تو حضورﷺ سے محبت کرنے اور ان پر ایمان رکھنے میں ہم مسلمانوں کو ناقص، اپنے مرزائیوں کو کامل کہتے ہیں۔ پھر آپ سے یہ کیسے لکھتے بنا کہ آریہ، حضور کی شان میں گستاخی وبدزبانی کرتے ہیں تو مسلمان کیوں چیختے ہیں۔ کیا ایمان اور محبت کا بھی مقتضیٰ ہے۔ آپ مدعی ہیں کہ روحانیت ہم میں ہے۔ اسلام کے حامی ومبلغ ہم ہیں۔ فرمائیے کیا روحانیت کی بھی علامت ہے۔ اسلام کے حامی ومبلغ کی بھی شان ہے۔ کیا آپ کے قمر الانبیاء جامع النبیین نے آپ کو بھی تعلیم دی ہے۔ افسوس! کفر کی رغبت بھی ہے دل میں بتوں کی چاہ بھی کہتے جاتے ہیں مگر منہ سے معاذ اﷲ بھی