احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
بحوالہ اوپر نقل کر چکا ہوں کہ حضورﷺ کی نبوت ورسالت کے بعد دوسرا مدعی نبوت ورسالت کاذب ہے، کافر ہے۔ مولوی ثناء اﷲ امرتسری کے بالمقابل آخری فیصلہ میں علانیہ کہا اور دعا کی کہ اگر میں مفسد، مفتری، کذاب، دجال ہوں تو مولوی ثناء اﷲ سے پہلے مرجاؤں۔ پیر مہر علی شاہ کے مقابلہ میں اشتہار دیا کہ ان سے مناظرہ کے لئے لاہور نہ جاؤں تو کاذب، مردود، ملعون ہوں۔ ۵؍نومبر ۱۸۹۹ء کو بڑا دو ورقہ اشتہار شائع کیا۔ جس میں یہ دعاء تھی کہ خدا جنوری ۱۹۰۰ء سے آخر دسمبر ۱۹۰۲ء تک میرے لئے نشان دکھلا جو انسانی ہاتھوں سے بالاتر ہو۔ پھر لکھا کہ میری یہ دعاء قبول نہ ہو تو میں ایسا ہی مردود، ملعون، کافر، بیدین اور خائن ہوں۔ جیسا کہ مجھے سمجھا گیا ہے۔ (نور ہدایت ص۳) (حمامتہ البشریٰ ص۷۹) میں تصریح کی کہ یہ جائز نہیں کہ میں نبوت کا دعویٰ کر کے اسلام سے خارج ہوجاؤں اور کافروں سے جاملوں۔ (قصیدہ اعجازیہ ص۵۸، خزائن ج۱۹ ص۱۷۰) کے ایک شعر میں لکھا ہے کہ میں اشر الناس (بدترین انسان) ہوںگا۔ اگر اہانت کرنے والے اپنی اہانت نہیں دیکھ لیںگے۔ فرمائیے حافظ صاحب! جب مرزاقادیانی نے حضورﷺ کی نبوت ورسالت کے بعد آپ کے نزدیک بھی نبوت ورسالت کا دعویٰ کیا۔ آپ کے فریق مخالف اہل اسلام کی تحقیق میں مرزاقادیانی، مولوی ثناء اﷲ سے پہلے مرگئے۔ پھر مہرعلی شاہ سے مناظرہ کے لئے لاہور نہ گئے۔ مذکورۂ میعاد میں خدا نے انسانی طاقت سے بالاتر نشان نہیں دکھلایا۔ اہانت کرنے والے مثلاً ڈاکٹر عبدالحکیم خان، مولوی عبدالحق غزنوی وغیرہ نے مرزاقادیانی کے سامنے جرم اہانت کی سزا نہیں پائی تو ہم اہل اسلام خصوصاً مولوی عبدالحلیم صاحب کانپور یا مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کس کو اشرالناس، دجال، بیدین، خائن، کاذب، کافر، مردود، مفسد، مفتری اور مرتد کہتے جائیں۔ اچھا حافظ صاحب! یہ بھی جانے دیجئے اور اب آپ ہی اپنے دین وایمان سے کہئے کیا مرزائیوں نے رسالہ نبی کی پہچان مطبوعہ قادیان میں نہیں لکھا کہ مرزاقادیانی کی دس پیشین گوئیاں جھوٹی ہوئیں۔ کیا کمالی یا لاہوری مرزائی پارٹی نے نہیں اقرار کیا کہ مرزاقادیانی کی سو پیشین گوئیوں میں ساٹھ جھوٹی ہوئیں۔ (اخبار اہل حدیث ۱۹؍محرم الحرام ۱۳۳۷ھ ج۱۵ نمبر۵۱، از اخبار الفضل مورخہ ۸؍اکتوبر) ہاں یہ دوسری بات ہے کہ آپ قسم کھا کر یہی کہے جائیں۔ ’’حضرت مرزاقادیانی کی ایک بھی پیشین گوئی نہیں جو خدائے تعالیٰ سے علم پاکر کی گئی ہو اور وہ غلط یا جھوٹی ہوئی ہو۔‘‘ (نور ہدایت ص۱۸۴)