احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
جو ذلت آمیز شکستوں پر شکستیں نصیب ہوتی رہیں۔ کیا وہ کبھی فراموش ہوسکتی ہیں۔ خصوصاً محلہ کنیش گنج کا واقعہ کہ پادری جوالا سنگھ کی انجمن جویان معرفت میں جب مولانا عبدالکریم صاحب مرحوم صدر المدرسین ندوۃ العلماء کے بعد حضرت والدی الماجد دامت برکاتہم نے غلمدیوں کے مناظرہ کا سلسلہ اپنے ہاتھ میں لیا تو غلمدی لوگ میدان بحث سے جس طرح بدحواس ہوکر بھاگے تھے اس کے دیکھنے والے سینکڑوں موجود ہیں۔ غلمدیوں کی ایک انجمن بھی لکھنؤ میں مدتوں سے قائم ہے۔ مگر بیچاروں کی کوئی نہیں سنتا۔ کوئی مسلمان حضرت رحمتہ اللعالمینﷺ کے ظل رحمت سے جدا ہوکر جدید عیسائی بننا منظور نہیں کرتا۔ تین چار پنجابی اور ایک ریلوے گارڈ صاحب جو پہلے سے اس بلا میں گرفتار ہوچکے تھے۔ بس یہاں یہی چند نفر غلمدی ہیں۔ کوئی نیا شخض دام میں نہیں پھنستا۔ ’’والحمد ﷲ علیٰ ذلک‘‘ غرضکہ لکھنو میں غلمدیت کی تحریک بہت دنوں سے مردہ ہوچکی تھی اور اب تو بفضلہ تعالیٰ ہر جگہ اس پر مردنی طاری ہورہی ہے۔ اس حالت پر لکھنؤ کے غلمدی صاحبان اگر کسی امر میں پیش قدمی کریںتو سوا اس کے کیا کہا جائے کہ ؎ بے حیا باش وہرچہ خواہی کن واقعہ یہ ہے کہ آخر شعبان میں جو مواعظ حضرت والدی الماجد دامت برکاتہم کے بتقریب استقبال ماہ مبارک ہوئے۔ جن میں نہایت اختصار کے ساتھ مقدمہ بہاولپور کا بھی کچھ تذکرہ فرمایا گیا۔ کیونکہ مسلمان بہت مشتاق ومنتظر تھے۔ تو غلمدیوں نے دخل در معقولات کے طور پر ایک شخص کے ذریعہ سے کچھ سوالات پیش کردئیے۔ حضرت ممدوح نے اولاً ان کے جواب سے اعراض کیا اور فرمایا کہ ہماری اس محفل کا یہ مقصد نہیں ہے۔ مگر جب پھر باربار ان کا اصرار ہوا تو آپ نے جواباً ان باتوں کو ضروری تفصیل کے ساتھ بیان فرمادیا۔ جن کو پہلے ترک کردیا تھا۔ مواعظ کا سلسلہ تو ختم ہوگیا۔ مگر غلمدیوں کی بے چینی نہ ختم ہوئی اور انجمن غلمدیہ کی طرف سے پانچ صفحہ کا ایک پمفلٹ یا اشتہار شائع ہوا۔ جس کا عنوان یہ ہے۔ ’’جناب مولوی عبدالشکور صاحب کے اعتراضات اور ان کے جوابات‘‘ جو اب تو ایک بات کا بھی نہیں دیا ہاں کچھ بے سروپا کفریات ضرور لکھی ہیں۔ جن میں اکثر باتیں وہ ہیں جو غلمدیوں کے علامہ نے بہاولپور کی عدالت عالیہ میں پیش کی ہیں اور ہماری طرف سے ان پر جرح کرنے کے لئے عدالت نے مارچ