احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
اپنے اوپر چسپاں کئے ہیں۔ یہاں بطور نمونہ کے ایک واقعہ درج ذیل کیا جاتا ہے۔ مرزا قادیانی (ضمیمہ انجام آتھم ص۳۰، خزائن ج۱۱ ص۳۱۴) میں لکھتا ہے: ’’پس اگر ان سات سال میں میری طرف سے خدائے تعالیٰ کی تائید سے اسلام کی خدمت میں نمایاں اثر ظاہر نہ ہوں اور جیسا کہ مسیح کے ہاتھ سے ادیان باطلہ کا مرجانا ضروری ہے۔ یہ موت جھوٹے دینوں پر میری ذریعہ سے ظہور میں نہ آوے۔ یعنی خدائے تعالیٰ میرے ہاتھ سے وہ نشان ظاہر نہ کرے جس سے اسلام کا بول بالا ہو اور جس سے ہر ایک طرف سے اسلام میں داخل ہونا شروع ہو جائے اور عیسائیت کا باطل معبود فنا ہوجائے اور دنیا اور رنگ نہ پکڑ جائے تو میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اپنے تئیں کاذ ب خیال کروںگا۔‘‘ کیا کوئی غلمدی یہ کہہ سکتا ہے کہ مرزاقادیانی کی یہ پیشین گوئی پوری ہوئی اور ادیان باطلہ پر موت طاری ہوگئی۔ ہر طرف سے لوگ اسلام میں داخل ہونا شروع ہوگئے۔ عیسائیت کا باطل معبود فنا ہوگیا اور دنیا اور رنگ پر آگئی۔ اگر یہ باتیں پوری نہیں ہوئیں تو مرزاقادیانی اپنے قسمیہ اقرار سے جھوٹا ہوا یا نہیں۔ یہاں تک سولہ جھوٹ مرزاقادیانی کے ہم نے بیان کئے۔ لیکن انصاف سے دیکھا جائے تو ہر جھوٹ کے اندر کئی کئی جھوٹ شامل ہیں۔ بھلا اتنا بڑا جھوٹا کذاب شرعاً عرفاً کسی طرح بھی اچھا آدمی کہا جاسکتا ہے۔ نبی ورسول ہونا تو بہت بڑی بات ہے۔ مرزاکا حضرات انبیاء علیہم السلام کی توہین کرنا گالی دینا ہر شخص جانتا ہے کہ کسی ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان کی توہین کرنا اس کو گالی دینا سخت معصیت ہے اور اس کا مرتکب ہرگز اچھی نظر سے دیکھنے کے لائق نہیں ہوسکتا۔ چہ جائیکہ حضرات انبیاء علیہم السلام کی توہین کرنا ان کو گالی دینا جو قطعاً کفر ہے اور اس کفر کا مرتکب کسی مہذب انسان کی نظر میں انسان بھی نہیں قرار پاسکتا۔ قرآن مجید نے باربار بڑے اہتمام سے انبیاء علیہم السلام کی عظمت وجلالت کا عقیدہ تعلیم کیا ہے اور مسلمانوں کو سب پر ایمان لانے اور سب کو یکساں واجب التعظیم سمجھنے کی تاکید فرمائی ہے۔ مرزاغلام احمد قادیانی کے متعلق جس طرح اس کے دروغ گوئیوں سے قطعی فیصلہ ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ چیز بھی فیصلہ کردیتی ہے۔ کیونکہ اس نے نہایت کمینہ پن سے بازاری الفاظ