احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
عبداﷲ آتھم الیٰ ان قال فاذا بشرنی ربی بعد دعوتی بموتہ الیٰ خمسۃ عشرا شہر‘‘ نیز (تریاق القلوب ص۱۱، خزائن ج۱۵ ص۱۴۸) میں لکھتے ہیں۔ ’’آتھم کے موت کی جو پیشین گوئی تھی۔ جس میں شرط یہ تھی کہ اگر آتھم پندرہ مہینے کی میعاد میں حق کی طرف رجوع کر لیںگے تو موت سے بچ جائیںگے۔‘‘ دوسرا جواب… یہ کہ اچھا صرف آتھم مراد نہ تھا تو اور بھی پریشانی مرزا کو لاحق ہوگئی۔ آتھم کے علاوہ تمام ان عیسائیوں کا جو شریک بحث تھے پندرہ ماہ کے اندر مر کر ہاویہ میں گرنا ثابت کرنا پڑے گا۔ دوسری تاویل یہ کہ آتھم نے حق کی طرف رجوع کرلیا۔ اس لئے نہیں مرا اور حق کی طرف رجوع نہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ اس پیشین گوئی سے ڈر گیا تھا۔ (انوار الاسلام ص۵، خزائن ج۹ ص۵) جواب… اس کا یہ ہے کہ حق کی طرف رجوع کرنے کے یہ معنی ہرگز نہیں ہوسکتے کہ ڈرجائے۔ بلکہ مرزاقادیانی کی الہامی عبارت کا سیاق وسباق صاف بتلارہا ہے کہ حق کی طرف رجوع کرنے کے معنی یہ ہیں کہ آتھم عیسائیت کو ترک کر کے مرزائی ہو جاوے۔ کیونکہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں۔ ’’جو شخص سچ پر ہے اور سچے خدا کو مانتا ہے۔‘‘ اس سے صاف ظاہر ہے کہ جو مراد سچ کی ہے اسی کی طرف رجوع مراد ہے۔ مرزاقادیانی نے اس بات کے ثبوت کے لئے کہ آتھم ڈرگیا تھا۔ اپنا پورا زور ختم کردیا۔ بڑے بڑے اشتہار دئیے۔ آتھم کو لکھا کہ تم قسم کھا جاؤ کہ ڈرے نہیں۔ تو ایک ہزار بلکہ دو ہزار بلکہ تین ہزار بلکہ چار ہزار انعام دوںگا۔ آتھم نے بجواب اس کے لکھا کہ قسم کھانا میرے مذہب میں منع ہے اور انجیل کا حوالہ دیا۔ مرزاقادیانی نے بجواب اس کے لکھا کہ عیسائیوں کے پیشواؤں نے عدالت میں قسمیں کھائی ہیں۔ آتھم نے لکھا کہ مجھے بھی عدالت میں طلب کر لو عدالت کے جبر سے میں بھی قسم کھالوںگا۔ ایک موقع پر مرزاقادیانی نے بدحواس ہوکر یہ بھی لکھ دیا کہ آتھم نے عین جلسہ مباحثہ میں حق کی طرف رجوع کرلیا تھا۔ اس وجہ سے پیشین گوئی پوری نہ ہوئی۔ (کشتی نوح ص۶، خزائن ج۱۹ ص۶) میں لکھتے ہیں۔ ’’اس (آتھم) نے عین جلسہ میں ستر معزز آدمیوں کے روبرو آنحضرتﷺ کو دجال کہنے سے رجوع کیا اور پیشین گوئی کی بناء یہی تھی کہ اس نے