احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
پھر اسی رسالہ (تحفہ غزنویہ ص۶، خزائن ج۱۵ ص۵۳۶)میں لکھتا ہے: ’’وعید یعنی عذاب کی پیشین گوئی کی نسبت خدائے تعالیٰ کی یہی سنت ہے کہ خواہ پیشین گوئی میں شرط ہو یا نہ ہو تضرع اور توبہ اور خوف کی وجہ سے ٹال دیتا ہے۔‘‘ حالانکہ یہ سب کذب صریح ہے اور تمام دنیا پر افتراء ہے اور اس کو خدائے تعالیٰ کی سنت کہنا مرزاقادیانی کی بے دینی اور گستاخی کی روشن دلیل ہے۔ کیا کوئی غلمدی کسی کتاب سے اس عقیدہ کو دکھلا کر مرزاقادیانی کو دروغ گوئی کی لعنت سے بچا سکتا ہے۔ قرآن مجید پکار پکار کر اعلان کر رہا ہے کہ: ’’لا تحسبن اﷲ مخلف وعدہ رسلہ‘‘ یعنی خدا اپنا وعدہ (خصوصاً) اپنے رسولوں سے خلاف نہیں کرتا۔ مگر مرزاقادیانی اس قرآنی اعلان کے خلاف خدا کی وعدہ خلافی کو متفق علیہ عقیدہ اور سنت اﷲ کہہ رہا ہے۔ ۱۰… مرزاقادیانی اپنی کتاب (انجام آتھم ص۳۰، خزائن ج۱۱ ص۳۰) میں لکھتا ہے کہ: ’’خدائے تعالیٰ نے یونس نبی کو قطعی طور پر چالیس دن تک عذاب نازل کرنے کا وعدہ دیا تھا اور وہ قطعی وعدہ تھا۔ جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہ تھی۔ جیسا کہ تفسیر کبیر ص۱۶۴ اور امام سیوطی کی تفسیر درمنثور میں احادیث صحیحہ کی رو سے اس کی تصدیق موجود ہے۔‘‘ پھر اسی (انجام آتھم ص۳۱،۳۲، خزائن ج۱۱ ص۳۱،۳۲) میں ہے کہ: ’’جس حالت میں خدا اور رسول اور پہلی کتابوں کے شہادتوں کی نظیریں موجود ہیں کہ وعید کی پیشین گوئی میں بظاہر کوئی بھی شرط نہ ہو تب بھی بوجہ خوف تاخیر ڈال دی جاتی ہے تو پھر اس اجماعی عقیدہ سے محض میری عداوت کے لئے منہ پھیرنا اگر بدذاتی اور بے ایمانی نہیں تو اور کیا ہے۔‘‘ اس عبارت میں چھ عدد جھوٹ وافترا ہیں۔ خدا پر افترائ، رسول یعنی آنحضرتﷺ پر افترائ، حضرت یونس علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام پر افترائ، تفسیر کبیر پر افترائ، تفسیر درمنثور پر افترائ، اجماعی عقیدہ کہہ کر تمام امت پر افترائ، ہر گز ہرگز کسی کتاب میں نہیں ہے کہ قطعی وعدہ چالیس روز کاتھا۔ بلکہ برعکس اس کے (تفسیر کبیر ج۶ ص۱۸۸) میں صاف موجود ہے کہ نزول عذاب کا وعدہ مشروط تھا کہ اگر تم لوگ ایمان نہ لاؤگے تو عذاب آئے گا اور ہرگز ہرگز کسی مسلمان کا یہ عقیدہ نہیں ہے نہ ہوسکتا ہے کہ خدا کا وعدہ اور پھر وہ بھی قطعی ٹل جاتا ہے۔ مرزاقادیانی کی جھوٹی پیشین گوئیوں پر جب گرفت ہوئی تو اس نے یہ بات بنائی کہ تنہا میں ہی جھوٹا نہیں ہوں۔ بلکہ اور نبیوں کی پیشین گوئیاں بھی غلط ہوچکی ہیں۔ خدا کی عادت یہی ہے