احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
ہے۔یا غلمدیوں سے، غلمدی تو موسیو بشیر الدین محمود کے زیر اثر ہیں۔ اب جو کچھ توقع ہے وہ صرف مسلمانوں سے ہے۔ اس لئے لاہوری پارٹی نے یہ اعلان کیا کہ ہم مرزا کو نبی نہیں مانتے اور مرزا کو نبی نہ ماننے والوں کو کافر نہیں کہتے۔ چنانچہ اسی پالیسی سے وہ بہت کچھ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ سادہ لوح مسلمان جس قدر جلد ان کے فریب میں آجاتے ہیں۔ قادیانی پارٹی کے قریب میں نہیں آتے۔ خواجہ کمال الدین کے پے درپے یورپ کے سفر اور ان سفروں کے بیش قرار اخراجات سب مسلمانوں ہی کے چندہ سے پورے ہورہے ہیں۔ مسٹر محمد علی صاحب کا انگریزی ترجمہ قرآن مجید مسلمانوں ہی کے روپیہ سے یورپ میں طبع ہوا۔ یکمشت سولہ ہزار روپیہ تو تاجران ۱؎ رنگون ہی کادیا ہوا ہے۔ قادیانی پارٹی اس مصلحت کی پروا اس وجہ سے نہیں کرتی کہ اس کے امام موسیو بشیر کو اپنے باپ کے ترکہ نے پورے طور پر مستغنیٰ کردیا ہے اور غلمدیوں کا دولت مند طبقہ اکثر اس کے ساتھ اور مرزاقادیانی کے مقرر کئے ہوئے اصول کے مطابق ماہوار چنددں کے دینے میں سرگرم ہے۔ اس پارٹی کے پاس اس قدر دولت ہے کہ شاید کہ والیان ملک ہی ہوںگے جو دولت میں اس کا مقابلہ کرسکیں۔ ابھی چند سال ہوئے کہ موسیو بشیر نے یورپ ۲؎ کے سفر میں لاکھ روپیہ صرف کردیا اور خزانے کا ایک کونہ بھی خالی نہیں ہوا۔ ظہیری پارٹی مرزاقادیانی کو نبی ورسول سے بالاتر یعنی خدا کا مظہر اور اپنے اس اعتقاد کے ثبوت میں مرزاقادیانی کے وہ کلمات پیش کرتی ہے۔ جن میں الوہیت کا دعویٰ ہے۔ اس پارٹی کا ایک ۱؎ تاجران رنگون کہ جب یہ معلوم ہوا کہ جس انگریزی ترجمہ قرآن مجید کے لئے سولہ ہزار روپیہ ان سے لیاگیا تھا۔ اس میں مرزائیت کی تبلیغ کی گئی ہے اور ترجمہ کے حاشیہ میں مرزاقادیانی کی تعلیمات درج کی گئی ہیں۔ تو تاجران رنگون نے ۱۵؍اکتوبر ۱۹۲۰ء کو بذریعہ مطبوعہ نوٹس خواجہ کمال الدین سے جو ان دنوں رنگون میں مقیم تھے۔ اپنے روپیہ کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ مگر روپیہ کا واپس کرنا کارے دار۔ ۲؎ یورپ کے سفر میں موسیو بشیر صاحب کو ٹل مسیح کا خطاب انگریزوں سے ملا،مقصود یہ تھا کہ انگریز خلیفہ المسیح کہیں۔ مگر ان کی زبان سے ٹل مسیح نکلا اور وہی مشہور ہوگیا۔ دیکھو اخبار زمیندار کے فائل۔