احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
میں پورے شہر اور رئیس رنگون سرجمال جیسوں کو یرغمال بنائے بیٹھا تھا۔ ساری اکڑفوں بھول، رنگون سے یوں بھاگنے لگا جیسے مجرم پولیس کو دیکھ کر چھپتا بھاگتا ہے اور دیکھا یہ گیا کہ خواجہ کبھی حلف اٹھا کر ایمان کی دہائی دیتا ہے۔ کبھی یار غار مرزاقادیانی سے برأت ظاہر کرتا اور کبھی جھوٹے حوالوں اور کتابوں کی بندر بھبھکی دیتا ہے۔ جب بات کسی طرح بنتی نظر نہیں آتی تو کہتا ہے صاحب ہمیں ایک پیسہ نہ دو ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دو۔ مگر ہوا یہ کہ امام اہل سنتؒ نے خواجہ کی شہ رگ جو دبا رکھی تھی خواجہ کے سامنے سرپر پاؤں رکھ کر بھاگنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ ناظرین! یہ تھے خواجہ کمال الدین جن کی شخصیت وحیثیت جاننے کے بعد ہمارے اکابر سے ان کی صف آرائی کا ایک منظر آپ کتاب ہذا میں پڑھیںگے۔ اس سے متعلق ہمیں کچھ نہیں کہنا۔ ہاں کتاب کو ایک صدی کے بعد منظر عام پر لانے کے لئے کیا کچھ کیاگیا۔ اس کی وضاحت ضروری ہے تاکہ راقم سطور پر تصنیفی اصول کی خلاف ورزی کا الزام نہ عائد ہو۔ ۱… کتاب کی زبان صدی گزرنے کے بعد بھی قابل تفہیم اور رواں ہے۔ اس لئے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ خال خال کہیں ضرورت پڑی تو سادہ قوسین() کے درمیان اس کی وضاحت کی گئی ہے۔ ۲… مرتب کتاب کا حاشیہ پہلے سے کتاب میں ہے۔ جس پر اخیر میں علامت ۱۲۔ کی لگی ہوئی ہے۔ راقم سطور نے جن امور کی وضاحت حاشیہ میں ضروری سمجھ اس کی اخیر میں ’’ش،ع‘‘ لکھ دیا ہے تاکہ مرتبؒ کے حاشیہ سے امتیاز رہے۔ ۳… قدیم طرز کتابت کی وجہ سے کتاب میں پیراگراف کی تبدیلی اور ان کے درمیان ذیلی سرخیوں کا اضافہ اسی طرح علامات ترقیم، فل اسٹاپ، کاما، رابطہ، ندائیہ، سوالیہ، سیمی کولن وغیرہ لگانا ناگزیر تھا۔ راقم نے یہ سب کچھ کیا ہے۔ لیکن اس کا خاص خیال رکھا ہے کہ جہاں کام بن گیا وہاں خود حضرت مرتبؒ کتاب ہی کی عبارتوں کو ذیلی سرخی میں تبدیل کیا۔ اگر مرتب کی موزوں عبارت نہ ملی تب اپنی جانب سے کسی مناسب جملہ کا اضافہ کیا ہے۔ ۴… قادیانی کتب اور دیگر کتابوں کے حوالوں کی مراجعت خود راقم سطور نے کی ہے۔ جدید حوالے اور جہاں حوالے نہیں تھے۔ ان کا اضافہ راقم نے قوسین{} کے درمیان کیا ہے جو قدیم حوالوں کے ساتھ ہی لکھا گیا ہے تاکہ چھوٹی سی کتاب حاشیوں کا جنگل نہ بن جائے۔ چونکہ فن مناظرہ میں اطمینان قلبی کے لئے قاری کا ذہن خاص طور پر حوالوں کی جانب