احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
۱… ’’ایک نہایت عجیب بات ہے کہ خواجہ صاحب (مرزاقادیانی کی) حقیقی پیش گوئیوں کو وقعت کی نظر سے نہیں دیکھتے۔ خواجہ صاحب نے فرمایا۔ پیش گوئیاں کیا بلاء ہوتی ہیں۔ ایسی پیش گوئیاں تو عام لوگ کردیتے ہیں۔ ابھی میرے پاس ایک کتاب تھی۔ جس میں اس جنگ (جون ۱۹۱۹ء میں ہوئی تھی) کے بارے میں پیش گوئیاں کی ہوئی تھیں۔ جو بعینہ صحیح ثابت ہورہی ہیں۔‘‘ (الفضل ۱۲؍جنوری ۱۹۲۰ء ج۷ ش۵۱) ۲… ’’ووکنگ مشن کے کارکنوں (جس کے سرغنہ خواجہ کمال الدین تھے) کے دکھانے کے دانت اور ہیں اور کھانے کے اور۔ جلسے پر آنے والوں کے لئے تو یہ دکھانے کے لئے کہ ہم اشاعت احمدیت کو کس قدر ضروری سمجھتے ہیں۔ لکھ دیا لوگوں کو احمدی بنانے میں کوشش کرنی چاہئے۔ لیکن ان کا اپنا عمل یہ ہے کہ ولایت میں احمدیت کا ذکر کرنا اور حضرت مسیح موعود کا نام لینا سم قاتل سمجھتے ہیں۔‘‘ (الفضل ۱۹؍فروری ۱۹۲۰ء ص۱۴) مرزا کے ایک قریبی دوست کے قول وعمل میں جہاں لاہوریوں اور مرزائیوں کے لئے عبرت کا سبق ہے وہیں یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ خواجہ اور مرزاکی گہری دوستی اپنے اخیر مرحلے میں کھٹی ہوتی نظر آتی ہے اور مرزا نے اپنی کوڑھ مغزی سے خواجہ کے چہرے میں نیک بختی کے جو نشان دیکھے تھے اور اپنی جھوٹی پیشین گوئیوں پر خواجہ کو گواہ بنایا کرتا تھا۔ وہ سب کچھ اخیر میں رفوچکر ہوتا نظر آتا ہے اور یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آتی ہے کہ خواجہ اور مسٹر محمد علی لاہوری اپنے انہی دوخطرناک دانتوں کے سہارے زندگی بھر مسلمانوں بلکہ بعض اہل علم اور دانشوروں کا شکار کرتے رہے۔ ’’صحیفۂ رنگون‘‘ (جواب روداد مباحثہ رنگون کے نام سے شائع ہورہی ہے) کے بعض مضامین سے اس کا اشارہ ملتا ہے کہ علماء رنگون نے قادیانیت کے خلاف ہزارہا اشتہارات شائع کئے اور بے شمار جلسے جلوس بھی کئے۔ لیکن اپنے جگری دوست مرزاقادیانی سے سیکھی سکھائی منافقانہ پینترے بازیوں میں کامل خواجہ کمال الدین اس وقت تک زیر نہ ہوا۔ جب تک امام اہل سنتؒ نے رنگون پہنچ کر خواجہ کی شہ رگ نہ دبائی۔ یہ حضرت امام اہل سنتؒ کے گہرے مطالعہ اور موضوع سے متعلق وسیع تر معلومات نیز مرزائیوں کی کتابوں اور کتابچوں تک رسائی کی بات ہے کہ آپ نے ۱۹۰۹ء کی خواجہ کی تصنیف ’’صحیفہ آصفیہ‘‘ کو رنگون پہنچتے ہی جب پیش کیا اور لاہوری نفاق کی دبیزتہوں میں چھپے خواجہ کے بھیانک جرائم طشت ازبام کئے تو وہ خواجہ جی جو اپنی چکنی چپڑی باتوں