احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
چہارم… اس نے ضروریات دین کا مثل حشر جسمانی وغیرہ کے انکار کیا۔ پنجم… اس نے تمام دنیا کے مسلمانوں کو جو اس کو نہیں مانتے کافر کہا۔ ان پانچوں وجوہ کا ثبوت دجال مذکور کی کتابوں سے اور ان کا کفر ہونا کتاب وسنت واقوال وفتاویٰ اکابر امت سے ثابت کیاگیا۔ کتابوں کی عبارتیں پیش کی گئیں۔ ان تمام شہادتوں کو عدالت نے حرف بحرف قلم بند کیا۔ پھر فریق مخالف کو حق دیا کہ وہ ان مذہبی مقدس گواہوں پر بے دھڑک جرح کرے۔ یہ تمام شہادتیں مع جرح کے آٹھ نو دن میں ختم ہوئیں۔ ان شہادتوں سے پہلے مدعا علیہ یعنی مرتد غلمدی کا بیان عدالت لے چکی تھی۔ جس نے بہت صفائی کے ساتھ یہ بیان دیا تھا کہ میں مرزاغلام احمد قادیانی کو مسیح موعود اور خدا کا نبی مانتا ہوں۔ مثل ان انبیاء کے جو ہوچکے ہیں۔ علمائے اسلام ادام اﷲ دامت برکاتہم کی شہادتوں کے بعد عدالت نے مقدمہ کی پیشی بڑھادی اور آئندہ پیشی ڈھائی مہینہ کے بعد یعنی ۵؍نومبر ۱۹۳۲ء سے مقرر فرمائی۔ حضرت شیخ الجامعہ نے حضرت والدی الماجد عم فیضہم کو ان تمام واقعات کی اطلاع دے کر پھر مزید اصرار فرمایا کہ مرزائی مولویوں کی شہادت سننے اور ان پر جرح کرنے کے لئے آپ کا تشریف لانا ضروری ہے۔ چنانچہ حضرت ممدوح یکم؍رجب المرجب ۱۳۵۱ھ مطابق یکم؍نومبر ۱۹۳۲ء کو رونق افروز بہاولپور ہوئے۔ غلمدیوں نے اپنی طرف سے پہلا گواہ جلال الدین شمس کو قرار دیا۔ جس کی بابت کہا جاتا ہے کہ دمشق ومصر وغیرہ وغیرہ میں رہ کر اس نے عربی پڑھی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس فرقہ کا سب سے زیادہ مستند عالم یہی ہے۔ ڈھائی مہینہ کی طویل مدت میں خاص قادیان کے اندر پاپائے قادیان اور امت غلمدیہ کے دوسرے کہنہ مشق لوگوں کے متفقہ مشورہ اور جانکاہ محنت کے ساتھ شہادت مرتب کی گئی۔ فل سکیپ سائز کے کاغذ پر لکھی گئی۔ غلمدی مذکور یہ لکھا ہوا ضخیم دفتر لئے ہوئے حاضر عدالت ہوئے اور اسی کو دیکھ دیکھ کر پڑھنا شروع کیا اور پورے سات دن تک اس سبق خوانی کا سلسلہ جاری رکھا۔ روزانہ دس بجے دن سے ڈھائی بجے تک یہ شہادت ہوتی تھی۔ ہمارے علمائے کرام بھی بڑی پابندی سے کچہری تشریف لے جاتے تھے اور باجازت عدالت دو آدمی ہمارے اس شہادت کو حرف بحرف قلمبند کرتے تھے۔ باوجودیکہ یہ شہادت اس قدر محنت اور اتنی مدت میں تیار