احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
کی گئی تھی۔ مگر الفاظ اور معانی کا بے ربط وبے محل ہونا عبارت کا اکثر مقامات میں خبط ہونا تطویل لاطائل اور مکرر الفاظ کا بے فائدہ بار بار لانا عربی الفاظ اور اعراب تو درکنار معمولی فارسی عبارت مثلاً مولانا جامی کے عقائد نامہ کے اشعار کا غلط پڑھنا یہ اور اس کے مثل اور بہت سی چیزیں بتارہی تھیں کہ اس مقدمہ نے تمام غلمدیوں کو بدحواس کردیا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ شہادت بڑے معرکہ کی شہادت تھی اور پاپائے قادیان موسیو بشیر صاحب خلیفۃ الدجال کی پوری طاقت اس میں ختم ہوئی۔ لیکن حق کو باطل اور باطل کو حق بنادینا کسی کے امکان میں ہوتا تو دین اسلام دنیا سے کب کا رخصت ہوچکا تھا۔ اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ ایک سال کامل اگر مرزااور مرزائیوں کی کتابوں کا مطالعہ کیا جاتا تو بھی اس کے کفریات کی حقیقت اتنی منکشف نہ ہوتی۔ جتنی کہ اس ہفت روزہ شہادت سے منکشف ہوئی۔ سچ ہے زبان اور قلم میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ ’’فتبارک اﷲ احسن الخالقین‘‘ جج صاحب نے جن کے اجلاس میں یہ مقدمہ ہے پہلے ہی حکم سنادیا تھا کہ اس وقت نومبر کو میں اس مقدمہ کی سماعت کروںگا۔ اس کے بعد سال تمام کی وجہ سے مجھے دوسرے سرکاری کاموں کا انصرام کرنا ہے۔ جلال الدین شمس غلمدی نے جب اپنی شہادت ۱۲؍نومبر ۱۹۳۲ء مطابق ۱۲؍رجب ۱۳۵۱ھ بروز شنبہ بوقت ڈیڑھ بجے دن کے ختم کردی تو جج صاحب نے ہمارے علمائے کرام سے پوچھا کہ آپ حضرات کو اس شہادت پر کچھ جرح کرنا ہے۔ ہماری طرف سے کہاگیا کہ ہم جرح کے لئے تیار ہیں اور کم سے کم پندرہ دن جرح کریںگے اور ہماری جرح میں انشاء اﷲ ایسے ضروری امور ہوںگے کہ مقدمہ زیر بحث کا پورا انکشاف ہوجائے گا اور عدالت کو اصل حقیقت کے سمجھنے اور فیصلہ کرنے میں بہت سہولت ہوگی۔ کچھ ردوکد کے بعد عدالت نے اس کو منظور کر لیا۔ مگر ساتھ ہی یہ حکم سنایا کہ اب اس مقدمہ کی پیشی مارچ میں ہوگی۔ اتنی مدت طویلہ کا انتظار اکثر حضرات کو بہت شاق گذرا اور عدالت کو اس طرف توجہ بھی دلائی گئی مگر جج صاحب نے اپنی عدیم الفرصتی کاعذر فرمایا۔ غرضکہ مقدمہ اب مارچ میں انشاء اﷲ تعالیٰ ہوگا اور علمائے اسلام کی طرف سے پندرہ دن کامل بحول اﷲتعالیٰ وقوتہ جرح ہوگی اور انشاء اﷲ ثم انشاء اﷲ اس زلزلہ افگن منشور ربانی کا منظر دنیا کے سامنے آجائے گا۔ ’’فاذ نزل بساحتہم فساء صباح المنذرین‘‘ دو لطف انگیز کارروائیاں ۱… ابتدائے مقدمہ میں عدالت سے یہ بات طے ہوگئی تھی کہ فریقین میں سے